ساہیوال میڈیکل کالج میں مالی اور انتظامی بے ضابطگیاں

ساہیوال میڈیکل کالج میں مالی اور انتظامی بے ضابطگیاں
ساہیوال میڈیکل کالج میں مالی اور انتظامی بے ضابطگیاں
کیپشن: m hanif goraya

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

عوام کو معیاری اور سستی تعلیم فراہم کرنا ریاست کا بنیادی فرض ہے۔ ریاست اپنی اس ذمہ داری کو کس حد تک نبھا رہی ہے اس سے عوام بخوبی آگاہ ہیں۔ صحت اور تعلیم ایسے شعبے ہیں، جن پر دنیا بھر میں جی ڈی پی کا کم از کم4فیصد ہر شعبہ پر ہر سال بجٹ میں مختص اور خرچ کیا جاتا ہے، مگر ہمارے ہاں دونوں شعبوں پر مجموعی طور پر بمشکل 3سے3.5فیصد بجٹ میں رکھا جاتا ہے، جس کا زیادہ تر حصہ ناقص منصوبہ بندی اور کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے۔
قارئین گزشتہ10سال سے پرائیویٹ میڈیکل کالجوں اور نجی تعلیمی اداروں میں معیاری تعلیم کے نام پر لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ تعلیم اور صحت کے شعبے میں قومی جذبے کی بجائے انہیں خالصتاً تجارتی بنیادوں پر چلایا جا رہا ہے۔ پرائیویٹ کالجوں کی اس لوٹ مار کے بارے میں راقم گاہے بگاہے ارباب اختیار کو آگاہ کرتا رہتا ہے۔ راقم نے روزنامہ ”نوائے وقت“ لاہور میں مورخہ 10دسمبر 2006ئ، 13اکتوبر 2008ئ، 10فروری 2010ء، روزنامہ ”جنگ“ لاہور 18ستمبر 2006ئ،8اکتوبر2008ءاور روزنامہ ”پاکستان“ لاہور میں9-10اکتوبر2008ءمیں ”پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کے ہوشر با اخراجات اور غیر معیاری تعلیم“ کے بارے میں حقائق پر مبنی آرٹیکل لکھے اور ارباب اختیار سے گزارش کی کہ وہ پبلک سیکٹر میں متوسط، نچلے متوسط اور غریب طبقہ کے ذہین طالب علموں کے لئے سیٹوں میں اضافہ کرے۔
قارئین! وفاقی وزارت صحت حکومت پاکستان نے اس معاملے پر سنجیدگی اختیار کرتے ہوئے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل اسلام آباد اور چاروں صوبائی سیکرٹریز ہیلتھ سے ہماری تجاویز پر سفارشات اور تجاویز طلب کیں اور بالآخر2010ءمیں وفاقی وزارت صحت نے چاروں صوبوں میں نئے میڈیکل کالجوں کے اجراء کا فیصلہ کیا۔
صوبہ پنجاب میں2010ءسے وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے سیالکوٹ، گوجرانوالہ، ساہیوال اور ڈی جی خان میں چار میڈیکل کالج بنانے کا اعلان کیا۔ ان کالجوں میں ایم بی بی ایس کے طالب علموں کے لئے داخلے کرنے کا اجراءہو چکا ہے۔ ان کالجوں میں ہر سال400سیٹوں پر متوسط اور نچلے طبقہ سے تعلق رکھنے والے ایسے ذہین طالب علم جو پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کے ہوشربا اخراجات برداشت نہیں کر سکتے تھے انہیں ان کالجوں میں داخلہ کا موقع مل گیا اور گزشتہ سال سے400طالب علم تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور مستقبل میں ڈاکٹر بن کر ملک اور عوام کی خدمت سرانجام دیں گے۔ وزیراعلیٰ پنجاب اور وزارت ہیلتھ پنجاب کا یہ اقدام نہ صرف قابل تحسین ہے، بلکہ غریب اور متوسط طبقہ کی حوصلہ افزائی کرنے کا عملی ثبوت ہے۔ حال ہی میں وزیراعلیٰ پنجاب نے بہاولنگر، بہاولپور، ڈیرہ غازی خان اور مظفرگڑھ میں بھی میڈیکل کالج، کارڈیالوجی اور500بیڈ کے ہسپتالوں کے قیام کا اعلان کیا ہے، جو قابل ستائش ہے۔
قارئین ماسوائے ساہیوال میڈیکل کالج ساہیوال کے باقی تینوں کالجوں PMDC، پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل اسلام آباد اورCPSP کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز کراچی سے باقاعدہ منظور شدہ ہیں اور تدریسی کام تسلی بخش انداز میں انجام دیا جا رہا ہے۔
قارئین! راقم جناب وزیراعلیٰ پنجاب اور وزارت ہیلتھ پنجاب کے ارباب اختیار کی خدمت میں ساہیوال میڈیکل کالج کے پرنسپل کی جانب سے مالی اور انتظامی بے ضابطگیوں کے بارے میں چند گزارشات پیش خدمت ہیں۔
ساہیوال میڈیکل کالج کی نئی بلڈنگ زیر تعمیر ہے۔ اس کالج کے تمام تر افراد ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال ساہیوال کی بلڈنگ میںتمام امور انجام دیئے جا رہے ہیں۔ ساہیوال میڈیکل کالج کو500بستر کے ہسپتال DHQ سے منسلک کیا ہوا ہے۔ ساہیوال کالج کے پرنسپل بنیادی طور پر پروفیسر آف بائیو کیمسٹری ہیں۔ آپ کو Clinical شعبہ میں پیدا ہونے والی جدید تحقیقات سے نا آشنا ہیں اور نہ ہی آپ پیتھالوجسٹ ہیں۔ آپ نے ابھی تک کالج کو PMDC،اورCPSP سے باقاعدہ منظور نہیں کرایا۔ وجہ معلوم نہیں۔
آپ کالج امور میں دلچسپی لینے کی بجائے اپنا زیادہ وقت ساہیوال میں ایک پرائیویٹ میڈیکل کمپلیکس کی لیبارٹری کو دیتے ہیں اور رات گئے تک وہاں رہتے ہیں۔کہتے ہیں کہ آپ اس میڈیکل کمپلیکس میں شیئر ہولڈر ہیں۔
طالب علم اور کالج سٹاف بے شمار مسائل سے دوچار ہیں۔ کالج کی بسیں پرانی اور کھٹارا اور نان ایئر کنڈیشنڈ ہیں۔ اس شدید گرمی میں دوران سفر طالب علم ذہنی دباﺅ کا شکار رہتے ہیں۔ لوڈشیڈنگ کے دورانیہ میں ہوسٹل میں کوئی متبادل انتظام نہیں ہوا۔ اس وجہ سے سٹوڈنٹس کی پڑھائی میں دشواری پیش آتی ہے۔ سٹوڈنٹس اور نرسنگ ہوسٹل میں بجلی اور پانی نہ آنے کی وجہ سے ہسپتال کا سٹاف اور طالب علم سخت پریشانی سے دوچار رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ آپریشن تھیٹر میں پانی کی فراہمی نہ ہونے سے مریضوں کے آپریشن تاخیر کا شکار ہوتے ہیں۔
ساہیوال میڈیکل کالج کے پرنسپل نے میڈیکل ایجوکیشن شعبہ کا میڈیکل ڈائریکٹر، ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ساہیوال کے ڈسٹرکٹ سرجن کو تعینات کر رکھا ہے، جن کا تعلقنہteaching faculty سے ہے اور نہ ہی وہ اکیڈیمک فیکلٹی کے ممبر ہیں اور نہ ہی ساہیوال میڈیکل کالج کے ملازم ہیں۔ ڈسٹرکٹ سرجن ساہیوال میں جیل روڈ پر واقع ایک بڑا پرائیویٹ ہسپتال چلا رہے ہیں۔ ساہیوال میڈیکل کالج میں ڈائریکٹر ایجوکیشن ہونے کی حیثیت میں اس پرائیویٹ ہسپتال میں جتنے مریض علاج کی غرض سے جاتے ہیں ان کی اکثریت ساہیوال میڈیکل کالج سے اس پرائیویٹ ہسپتال میں جاتی ہے۔ پرنسپل صاحب نے ڈسٹرکٹ سرجنDHQساہیوال کو ڈائریکٹر ایجوکیشن کیوں تعینات کر رکھا ہے۔ معلوم نہیں وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔ ان کے اس اقدام کے پیچھے کیا مخصوص مفادات وابستہ ہیں۔
قارئین! ساہیوال میڈیکل کالج کو سال 2012-13ءمیں حکومت پنجاب کی طرف سے کالج کے ترقیاتی کام کروانے کے لئے تقریباً38کروڑ روپے کی خطیررقم دی گئی۔ پرنسپل دوران سال ترقیاتی کام نہ کروا سکے اور سال کے آخر میں 36کروڑ کی رقم Surrender (واپس) کرنا پڑی۔ کالج کے پرنسپل، پروجیکٹ ڈائریکٹر کے فرائض بھی سرانجام دیتے ہیں۔ انہیں ہرماہ ہسپتال سے تنخواہ بشمول ٹی اے ڈی اے اور انٹرٹینمنٹ جو کہ تقریباً ایک لاکھ50ہزار بنتی ہے کے علاوہ ڈائریکٹر پروجیکٹ کی تنخواہ ماہانہ ایک لاکھ روپے وصول کرتے ہیں۔
مزید برآں آپ کی لاہور، ملتان میں دو رہائش گاہیں ہیں۔ ان کا یہ معمول ہے کہ ہر جمعہ کی دوپہر کو اپنا سرکاری دورہ کرنے کا پروگرام ترتیب دے کر سرکاری گاڑی، پٹرول اور ڈرائیور کے ساتھ اپنے گھر ملتان، لاہور تشریف لے جاتے ہیں۔ دو دن گزار کر سوموار کو دن11:30بجے تشریف لاتے ہیں۔ اپنے نجی دورہ کو سرکاری وزٹ بنا کر ہر ماہ تقریباً 50 ہزار روپے ٹی اے ڈی اے وصول کرتے ہیں۔ اس طرح قومی دولت کو اپنے ذاتی مفاد کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ کیا یہ کھلی مالی بے ضابطگی نہیں ہے؟
قارئین ساہیوال میڈیکل کالج کے پرنسپل اگر ترقیاتی فنڈ کی خطیر رقم38کروڑ واپس کرنے کی بجائے اس سے طالب علموں کے لئے ایئر کنڈیشنڈ بسیں خرید لیتے، سٹوڈنٹس اور نرسنگ ہوسٹل میں لوڈشیڈنگ اور پانی کی نایابی کوختم کرنے کے لئے کام کروا دیتے تو کالج کے ماحول کو طالب علم دوست اور خوشگوار بنایا جا سکتا تھا، مگر افسوس کہ انہوں نے طالب علموں اور کالج کے مجموعی مفادات کو پس پشت ڈال رکھا ہے۔
ساہیوال کالج کو ابھی تکPMDC سے منظور نہ کرانے کی بنا پر طالب علموں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ اندیشہ ہے کہ اگر کالج کوPMDC اور CPSP سے منظور نہ کرایا گیا تو ان طالب علموں کا مستقبل خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
راقم نے ساہیوال میڈیکل کالج میں پائی جانے والی مالی اور انتظامی بے ضابطگیوں کے بارے میں تمام حقائق ارباب اختیار کی خدمت میں پیش کئے ہیں۔ ہم اس کالج کا مستقبل روشن دیکھنا چاہتے ہیں۔ بہت محنت اور جدوجہد سے حکومت نے پبلک سیکٹر میں ہسپتال کا قیام عمل میں لایا ہے۔ اس کے بارے میں عوام نے اچھی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔
راقم وزیراعلیٰ پنجاب اور سیکرٹری ہیلتھ سے گزارش کرتا ہے کہ کالج کے وسیع تر مفاد میں پرنسپل کو فوری طور پر عہدہ سے ہٹایا جائے، ان کے خلاف غیر جانبدارانہ انکوائری کمیٹی تشکیل دی جائے اور جب تک تحقیقات مکمل نہیں ہوتیں کالج میں باصلاحیت، ایماندار اور تجربہ کار پرنسپل اور دیگر پروفیسروں کو تعینات کیا جائے، جو اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے علاقے کے عوام کے ذہین بچوں کی تدریس کریں۔ کالج سے ایسے ہونہار طالب علم فارغ التحصیل ہوں، جو علاقے کی ترقی اور خوشحالی کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کر سکیں۔ پبلک سیکٹر میں ساہیوال میڈیکل کالج کے قیام سے ایک کروڑ سے زائد عوام صحت عامہ کی بنیادی سہولتوں سے فیض یاب ہوں گے۔

پاکستان زندہ باد.... قائداعظم پائندہ باد۔

مزید :

کالم -