طاہر القادری انقلاب پارٹ ٹو

طاہر القادری انقلاب پارٹ ٹو
طاہر القادری انقلاب پارٹ ٹو
کیپشن: Tahir ul Qadri

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 آج طاہر القادری صاحب نے ایک بار پھر انقلاب کا نعرہ لگا کر پاکستان کا رخ کیا. انہوں نے پاکستان میں اسلام آباد پہنچنا تھا مگر حکومت نے پھر کچھ ویسا ہی کیا جو اس نے قادری صاحب کی ایک تقریر کے بعد رات کے پچھلے پہر بیر ئیر اکھاڑ کر کیا تھا ۔ قادری صاحب کا انقلاب آنا ہے یا نہیں مگرکل کے تمام دن کی کارروائی سے  ایک بات تو ثابت ہے کے ماڈل ٹاؤن سانحہ غلط بنیاد بنا کر برپا کیا گیا کیونکہ جب طاہر القادری صاحب کی گورنر سے بات چیت ہوئی تو قادری صاحب کے مطالبات میں سے ایک مطالبہ بیر ئیر واپس لگانے کا تھا جو  گورنر صاحب نے بخوشی مان لیا. اس سے یہ مطلب آسانی سے لیا جا سکتا ہے کہ بیر ئیر کا بہانہ جھوٹ پر مبنی تھا.اس جھوٹ کے ستون پر ٹکا ہوا سانحہ ماڈل  ٹاؤن  طاہر القادری کے حق میں اور حکومت کے  مخالف  زیادہ جا رہا ہے ۔

اس سانحے نے جہاں قادری صاحب کو شہید فراہم کئیے وہیں انہیں حکومت کے مقابلے میں کافی وزنی بنا دیا ۔ یعنی قادری صاحب کو  اخلاقی جواز ،جوش و جذبہ، غم وغصہ غرض اس طرح کے تمام عناصر وافر مقدار میں میسر آگئے . اس حادثے نے ان کے کارکنوں کو مزید جوڑ دیا یہاں تک کہ کل  اسلام آباد کی سڑکوں پر کھڑی پولیس  کاہر فرد ان کو انہی  پولیس والوں جیسا  محسوس ہو رہا تھا جو  سانحہ ماڈل   ٹاؤن کے  ذمہ دار تھے . ائیر پورٹ تک پہنچنے میں حائل رکاوٹیں قادری صاحب کے جانثاروں کو ماڈل  ٹاؤن سے اکھاڑ کر لائی ہوئی رکاوٹیں محسوس ہوئیں تو انہوں نے انھیں اس طرح عبور کیا جیسے عبور کرنے کا حق ہوتا ہے مگر حکومت نہ جانے کس خمار میں تھی کہ پہلے تو انٹر نیشنل فلائٹ کو اسلام آباد ائیر پورٹ کی بجائے لاہور ائیر پورٹ کی جانب موڑ دیا، پھر کارکنوں سے جھڑپیں کی گئیں .گزشتہ روز  کارکنوں کا دن تھا، انہوں نے ماڈل  ٹاؤن کا بدلہ لے لیا تاہم اس رویے کو کسی طور بھی درست نہیں کہا جا سکتا  ۔

کچھ جانب سے یہ آواز آئی کہ آج حکومت نے زیادہ نمبرز بنا لئے. عرض ہے کہ  آج کے حساب میں تو حکومت نے زیادہ نمبرز بنا لئے مگر آج تک کا ٹوٹل دیکھا جائے تو قادری صاحب کے پاس نمبر پھربھی زیادہ ہیں اور  درجن سے زائد  شہداءکی میتیں بھی. انھیں قادری صاحب  کبھی مرنے نہیں دیں گے کیونکہ یہی ان کی اصل طاقت ہے اور یہی وہ نمبرز ہیں جو حکومت سے کہیں زیادہ ہیں . اپنی 'میتوں' کو 'زندہ' رکھنے کیلئے قادری صاحب نے انتقام تک کے لفظ استعمال کر ڈالے. ان کے انقلاب کے طریقہ کارسے مجھے اختلاف ہے مگر ملک میں ریلی نکالنا ،  جلسے جلوس کرنا اور  جہاں چاہے لینڈ کرنے کی خواہش رکھنا ان کاآئینی حق ہے جسے ان سے چھینا  نہیں جانا چاہئے ، مگر حکومت نےاپنے حد سے زیادہ حفاظتی اقدامات سے تمام دنیا کی نظریں نہ صرف پاکستان کی طرف موڑ دیں بلکہ ایک انٹرنیشنل فلائٹ کو وفاقی دارلحکومت میں اترنے نہ دیا . اس اقدام کی وجہ دہشت گردی کا خطرہ  اور کارکنوں کی ہنگامہ آرائی بتائی گئی جس سے ہم نے یہ تاثر بھی دے دیا کہ ملک کا دارلحکومت اور اس میں موجود تنصیبات محفوظ نہیں.  انٹرنیشنل فلائٹ اس طرح دوسرے شہر کی جانب موڑنے کا ہرجانہ کتنا ادا کرنا پڑے گا؟ بین الاقوامی سطح پر کتنی جگہ ہنسائی ہو گی؟ اس کا ابھی ہمیں اندازہ نہیں ہے، مگرگزشتہ روز کے واقعات نے ایک بات ثابت کر دی ہے کہ حکمران جماعت ایک ایسے لیڈر سے خوفزدہ ہے جس  کا جماعتی وجود تو ہے مگر سیاسی نہیں.جس  کے لوگ جلسہ کی شکل میں تو اکٹھے ہوتے ہیں مگر جب ووٹ کی بات آتی ہے تو قادری صاحب بمشکل ایک ہی سیٹ جیت سکتے ہیں اور وہ بھی ان کی اپنی. ابھی تک  ان  کے ساتھ  عمران خان یا  شیخ رشید میں سے بھی کوئی شخص شامل نہیں ہوا، تاہم ممکن ہے کہ  مسلم لیگ ن اس سرکوبی کی سیاست کے ذریعے ان منتشر لوگوں اور  جماعتوں کو اکٹھا کر دے .

ایسا ہوا تو یہ نہ صرف ن لیگ بلکہ جمہوریت کیلئے بھی خطرہ ثابت ہو سکتا ہے. محسوس ہوتا ہے کہ شاید موجودہ حکمران بھانپ چکے ہیں کہ کیا ہونے والا ہے  اور وہ یہ خیال کر رہے ہیں کہ ان کا جانا تو ٹھہر چکا تو کیوں نہ اپنے دل کی بھڑاس نکال لی جائے اور کچھ پرانے حسابات بھی چکا دئیے جائیں، چاہے وہ قادری صاحب سے ہوں یا مشرف صاحب سے .مشرف  کے معاملے میں  سپریم کورٹ نے حکومت کی درخواست پر سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ غیر موثر کر دیا ہے اور وہ اب ملک سے باہر نہیں جا سکتے. یہ  چند مقتدر حلقوں کے لئے اچھی خبر نہیں اور نہ ہی وہ  اسے ٹھنڈے پیٹوں ہضم کریں گے کیونکہ حکومت کا اور ان  مقتدر حلقوں کا صرف تین باتوں پر اختلاف تھا . ان کے مطالبات تھے کہ ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف مہم چلانے والے نجی چینل کو بند کیا جائے  ،وزیرستان آپریشن کا آغاز کرنے کی اجازت دی جائے اور مشرف صاحب کا راستہ نہ روکا جائے . حکومت نے دو باتیں مانیں وہ بھی انتہائی دباؤ  کے بعد. اب تیسری بات ماننے سے حکومت انکاری  نظر آتی ہے اور اس کے نہ ماننے میں صرف ذاتی عناد نظر آرہی ہے. صرف اپنے بدلے کا سوچا جا رہا ہے کہ اگر ایک شخص نے ان کو ہتھکڑی لگائی تھی تو وہ بھی اسے ہتھکڑی لگانا چاہتے ہیں. باقی اس حوالے سے پھر کبھی عرض کروں گا مگر صرف اتنا کہوں گا کہ نواز شریف کے پاس صرف ایک آدمی کا ووٹ نہیں اور ان پر ذمہ داری صرف ایک انسان کی نہیں کروڑوں پاکستانیوں  کی ہے اور  موجودہ صورتحال میں سمجھداری درکار ہے نہ کہ جذباتیت ۔اپنا نہیں عوام کا سوچیں، یہ کسی ایسے عمل کی متحمل نہیں ہو سکتی کیونکہ پنجابی میں کہتے ہیں،

                 ہتھا ں دیا دتیاں گنڈاںدنداں نال کھولنا پیندیاں نے

مزید :

بلاگ -