افغان پارلیمنٹ پر حملہ
سوموار کوطالبان نے افغان پارلیمنٹ کے باہر خودکش حملہ کیا اور پھر حملہ آوروں نے عمارت کے اندر داخل ہونے کی کوشش کی جسے سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے ناکام بنا دیا۔ تفصیلات کے مطابق پہلے پارلیمنٹ کی عمارت کے باہر خود کش کار بم دھماکہ ہوا، جس کے بعد 6 مسلح حملہ ٓاوروں نے عمارت کے اہم کمپاؤنڈ میں گھسنے کی کوشش کی۔ سیکیورٹی حکام کے مطابق تمام حملہ آور افغان پولیس کی جوابی کارروائی میں ہلاک ہوگئے تاہم ارکان پارلیمنٹ محفوظ رہے۔ پارلیمنٹ پر حملے کے بعد عمارت کے ایک حصے میںآگ بھی لگ گئی۔ ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے حملے کی ذمہ داری قبول کرلی،اہم بات یہ ہے کہ یہ حملہ اس وقت کیا گیا جب پارلیمنٹ کا اہم سیشن جاری تھا اور وزیر دفاع کو ایوان سے متعارف کرایا جا رہا تھا۔اس کے علاوہ افغانستان کی سکیورٹی فورسز نے مُلک کے مختلف علاقوں میںآپریشن کے دوران 57جنگجوؤں کو ہلاک کردیا، غزنی میں سیکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپوں میں 10عسکریت پسند اور 6پولیس اہلکار ہلاک ہوگئے ،ننگرہار میں فضائی حملے میں 7عسکریت پسندوں کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی،لیکن اس کے ساتھ طالبان شمالی افغان صوبے قندوز کے ایک اور ضلع پر قبضہ کرنے میں بھی کامیاب ہو گئے۔وزیراعظم نوازشریف نے افغان حکومت کے نام اپنے پیغام میں کابل پارلیمنٹ پر حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے دونوں ممالک کے درمیان تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی۔ وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کو انسانی جانوں سے کھیلنے کا کوئی حق نہیں ، وہ بزدلانہ کارروائیوں کے ذریعے اپنے انجام سے نہیں بچ سکتے۔ وہ افغانستان اور پاکستان کے مشترکہ دشمن ہیں دونوں ممالک میں امن اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے دوطرفہ تعاون جاری رہے گا، خطے سے دہشت گردی کا خاتمہ کرکے دم لیں گے۔
طالبان کا افغان پارلیمنٹ پر حملہ افسوسناک واقعہ ہے، اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ایک طرف تو طالبان اورافغان حکومت کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے، ابھی پچھلے ہفتے ہی طالبان اور افغان حکومت کے نمائندوں کے درمیان ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں غیر رسمی ملاقات ہوئی،حتمی نتیجہ تو کوئی بر آمد نہیں ہو سکا، لیکن فریقین کے درمیان جولائی کے آخر میں دوبارہ ملنے کا امکان موجود ہے۔اس سے قبل بھی طالبان اورافغان حکومتی نمائندوں کے درمیان دبئی، قطر اور چین میں غیر رسمی مذاکرات ہو چکے ہیں۔اس کے باوجود طالبان اپنی پُرتشدد کارروائیوں سے باز نہیں آ رہے ہیں۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ طالبان کے درمیان اختلافات کو ظاہر کرتا ہے، طالبان میں شدت پسندوں کا ایک ایسا گروہ موجود ہے جو کسی بھی حال میں بندوق رکھنے کو تیار نہیں ، اس نے رمضان کے با برکت مہینے کا احترام کئے بغیر اپنی جارحانہ کارروائیاں جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے،وہ بندوق کے زور پر افغانستان پر قابض ہونا چاہتے ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ہمیں افغانستان میں امریکی افواج کی موجودگی برداشت نہیں،افغان حکومت کا موقف ہے کہ اگر طالبان بندوق رکھ دیں گے اور امن قائم ہو جائے گا تو امریکی فوجیوں کی ضرورت خود بخود ختم ہو جائے گی۔
واضح رہے گزشتہ برس دسمبر میں افغانستان سے نیٹو فورسز کاانخلا عمل میں آیا تھا۔اس وقت صرف دس ہزار کے قریب امریکی اور نیٹو فورسز کے اہلکار افغانستان میں موجود ہیں، جن کا بنیادی مقصد افغان سیکیورٹی اہلکاروں کی تربیت کرنا ہے ۔نیٹو فورسز نے تو افغانستان سے جاتے ہوئے اپنی فتح کا جشن منایا، ان کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے افغانستان سے شدت پسندی کا خاتمہ کر دیا ہے، لیکن طالبان اس خیال سے متفق نہیں تھے اور اپنے خیال کو صحیح ثابت کرنے کے لئے انہوں نے اس وقت بھی بھرپور حملے کئے۔ ایک رپورٹ کے مطابق طالبان نے 2014ء کے آخر میں پچھلے دو سال کی نسبت زیادہ خطرناک حملے کئے، سیکیورٹی چیک پوسٹس کو نشانہ بنایا۔2014ء میں گزشتہ چھ سال کی نسبت سب سے زیادہ سیکیورٹی اہلکار اور شہری جاں بحق ہوئے۔2015ء میں بھی انہوں نے شدید کارروائیاں کیں ،طالبان نے حامد کرزئی ائیر پورٹ پر امریکیوں کو نشانہ بنایا، ترک حکومت کی گاڑی پر حملہ کیا، جلال آباد میں ایک کارروائی میں 30کے قریب شہریوں کو ہلاک کر دیا۔ رواں سال کے پہلے چار ماہ میں ایک ہزار سے زائد عام شہری دہشت گردی کا نشانہ بنے۔بعض ناقدین طالبان کی ان کارروائیوں کی بڑی وجہ افغانستان میں آرمی چیف اور وزیر دفاع کے عہدوں پر تقرریوں میں تعطل کو گردانتے ہیں۔یاد رہے کہ افغانستان میں آرمی چیف کا تقرر مئی میں ہوا اور وزیر دفاع کو جس وقت ایوان سے متعارف کرایا جا رہاتھا اسی وقت طالبان نے پارلیمنٹ پر حملہ کرنے کی کوشش کی۔
جنگجوؤں کو یہ بات سمجھنا ہو گی کہ ایسی کارروائیوں سے کچھ حاصل نہیں ہو گا،صرف خانہ جنگی جنم لے گی۔ افغان حکومت مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنے کے لئے تیار ہے، طالبان کو بھی سنجیدگی سے اس طرف توجہ دینی چاہئے۔ افغانستان میں ایک حکومتی اسٹرکچر بن چکا ہے، ووٹ کے ذریعے حکومت قائم ہو چکی، اس کے زیر کمان سیکیورٹی فورسز نے حملے کو ناکام بنا دیا اس کے علاوہ مختلف کارروائیوں میں شدت پسندوں کو ہلاک بھی کر دیا،تمام تر تنقید کے باوجود انہوں نے ثابت کر دیا کہ وہ نرم چارہ نہیں۔امید ہے افغان سیکیورٹی فورسز وہ علاقے بھی واپس لینے میں کامیاب ہو جائیں گی، جہاں مخالف دوبارہ قابض ہو چکے ہیں۔ ان حالات میں پاکستان اور افغانستان کو آپس میں تعاون بڑھانے کی ضرورت ہے،دونوں اپنے انٹیلی جنس شیئرنگ کے معاہدے کو مزید مضبوط کریں تاکہ خطے میں امن قائم ہو سکے۔