پاک افغان بارڈر منیجمنٹ میں ردوبدل سے قبائلی معیشت بری طرح متاثر ہو گی: ماہرین

پاک افغان بارڈر منیجمنٹ میں ردوبدل سے قبائلی معیشت بری طرح متاثر ہو گی: ...

  


اسلام آباد(آئی این پی)پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹدیز کے زیر اہتمام افغانستان پر ایک خصوصی رپورٹ کے اجراکے موقع پر مقررین نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کی سا لمیت ایک دوسرے سے مشروط ہے ،اگر افغانستان میں ریاست کا انہدام ہوا تو اگلی باری پاکستان کی ہو گی ۔پاکستان افغانستان میں قیام امن کے لئے اپنا کردار ادا کرے ۔ان خیالات کا اظہار یہاں پر پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹدیز کے زیر اہتمام افغانستان پر ایک خصوصی رپورٹ کے اجراکے موقع پر مقررین نے اپنے خطاب میں کیا جن میں سابق وزیر خارجہ انعام الحق ، سینیٹر فرحت اللہ بابر ، سابق سینیٹر افراسیاب خٹک ، سابق سیکرٹری سینیٹ افتخار اللہ ، ضیا ء الدین ، ڈاکٹر اشتیاق ، ڈاکٹر فضل الرحمٰن ، پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے ڈائر یکٹر محمد عامر رانا اور محمد اسماعیل خان شامل تھے ۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ اشرف غنی کے بر سر اقتدار آنے سے دونوں جانب سے کافی امیدیں بندھیں۔اشرف غنی نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران پروٹو کول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جی ایچ کیو کا دورہ کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ افغان پالیسی کہاں بنتی ہے۔ مگر اس کا نتیجہ کیا نکلا ۔ہماری ریاست کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں ٓئی ۔انھوں نے کہا کہ در اصل ہماری کوئی افغان پالیسی ہے ہی نہیں ہماری خارجہ پالیسی انڈیا کے گرد گھومتی ہے اور باقی تمام دنیا سے تعلقات اسی پالیسی کے رخ پر متعین ہوتے ہیں انھوں نے کہا کہ جو لوگ خارجہ اور سیکورٹی پالیسیاں تشکیل دیتے ہیں وہ پارلیمنٹ کو جوب دہ نہیں ۔افراسیاب خٹک نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستانی اور افغان طالبان ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں ۔دونوں کی حکمت عملی بھی ایک ہے ۔افغانستان میں بھی طالبان نے جدید ریاست کی ہر نشانی کو مٹانے کی کوشش کی یہاں بھی طالبان یہی کچھ کر رہے ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ طالبان تحریک بنیادی طور پر ریاست کے انہدام کی تحریک ہے اگر افغانستان کا انہدام ہو گا تو اس کے بعد اگلی باری پاکستان کی بھی ہو گی۔ پاکستان کو اب اپنی افغان پالیسی پر نظر ثانی ضرورت ہے۔کیونکہ اس سے قبل کی تمام پالیسیاں ناکام ہو چکی ہیں۔ افغانستان نے مزار شریف میں پاکستان کو صنعتی زون بنانے کی پیش کش کی تاکہ وہ اپنی مصنوعات وسطی ایشیائی ممالک کوبر آمد کر سکے۔ انڈیا تاجکستان میں اپنا بیس بنا رہا ہے وہ افغانستان میں بھی اپنے معاشی اور جغرافیائی اہداف رکھتا ہے۔ مگر ان حالات میں بھی انڈیا پاکستان کا مقابلہ نہیں کر سکتا پاکستان کی افغانستان سے مماثلتیں زیادہ ہیں ۔ مگر یہاں پراپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ وہاں 24 انڈین قونصلیٹ ہیں جبکہ حقیقت میں صرف چار ہیں جو داؤد کے زمانے سے ہیں۔ سابق وزیر خارجہ انعام الحق نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں امن کی ضمانت نہیں دے سکتا لیکن اتنا ضرور کرے کہ طالبان کو پاکستان میں محفوظ ٹھکانے نہ دے۔ انڈیا افغانستان میں جو کچھ کرے ہمیں اس سے غرض نہیں ہونی چاہئے بلکہ ہمیں صرف اس بات سے غرض ہونی چاہئے کہ افغا نستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو سکے ۔ ریجنل پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے صدر رؤف حسن نے اپنے خطاب میں کہا کہ یہ خیال درست نہیں کہ پاکستان افغانستان میں امن لا سکتا ہے کیونکہ ماضی میں اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود وہ طالبان کو مزاکرات کی میز پر نہیں لا سکا۔ مسئلہ چاہے بامیان میں بدھا کے مجسمے کا مسئلہ ہو یا پھر اسامہ کو امریکہ کے حوالے کرنے کا ، ہر اہم مسئلے پر طالبان نے پاکستان کی نہیں مانی۔ پاکستان نے عالمی فورم پر وعدہ کیا ہوا ہے کہ اگر طالبان مزاکرات کی میز پر نہیں آئیں گے تو وہ ان کے خلاف مشترکہ طور پر کارروائیوں میں شریک ہو گا۔ ڈائریکٹر سکول آف پالیٹکس قائد اعظم یونیورسٹی ڈاکٹر اشتیاق احمد نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہماری اشرافیہ نے جغرافیائی سیاست کا جو نقشہ کھینچا تھا اس کی ہم نے بھاری قیمت چکائی ہے۔ اس لئے انڈیا اور افغانستان کے امور پر جو قوتیں فیصلہ ساز ہیں انھیں اب نئے تقاضو ں اور رجحانات کو مدنظر رکھ کر اپنی روش بدلنی ہو گی ۔اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈاکٹر فضل الرحمٰن نے کہا کہ افغانستان میں چین اور انڈیا کے مفادات ایک جیسے ہیں ۔اسماعیل خان نے کہا کہ بارڈر مینجمنٹ میں ردو بدل سے قبائل کی معیشت بری طرح متاثر ہو گی پہلے ہی قبائلی علاقوں میں غربت اور بیروزگاری کی شرح پور ے ملک میں سب سے زیادہ ہے ۔

مزید :

صفحہ آخر -