دھرنوں کی سیاست (2)

دھرنوں کی سیاست (2)
 دھرنوں کی سیاست (2)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پچھلے دو ڈھائی سالوں سے عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری نے پاکستان میں دھرنوں کی سیاست کو مسلسل پروان چڑھایا ہے ۔ 2014ء میں ان دونوں سیاسی لیڈروں نے اسلام آباد میں طویل دھرنا دیا تھا۔ بظاہر دونوں کے مقاصد علیحدہ علیحدہ تھے لیکن ٹائمنگ، طریقہ کار اور سٹائل سے ظاہر ہوتا تھا کہ یہ مشترکہ پراجیکٹ ہے جس کی منصوبہ بندی لندن میں ہوئی تھی ۔ عمران خان نے 2013ء میں ہونے والے انتخابات میں دھاندلی کا الزام اورڈاکٹر طاہر القادری نے جون 2014ء میں ہونے والے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے خلاف دھرنا اس انداز میں دیا کہ کئی مہینے دارالحکومت اسلام آباد کا نظام مفلوج کئے رکھا۔ ڈاکٹر طاہر القادری کا دھرنا 67 اور عمران خان کا 126 دن جاری رہا تھا۔ اس دوران بھی بہت سے لوگ ان دھرنوں کے سکرپٹڈ ہونے کی بات کرتے ہوئے ان کے تانے بانے اندرون یا بیرون ملک ملاتے رہتے تھے۔ اس دوران بھی میں نے اپنے کالموں میں یہی لکھا کہ سکرپٹ ہو یا نہ ہو ملکی دارالحکومت کو یرغمال بنانے اور ملک کا سارا نظامِ کاروبار مفلوج کر دینے سے ملک کا بہت نقصان ہو رہا ہے۔ اس دوران بہت سے ماہرین معاشیات ہمیں یہ بھی بتاتے رہے کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنوں سے ملکی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان ہوا۔ دو سال کے بعد جب میں عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنوں کے ملکی معیشت پر اثرات دیکھتا ہوں تو ان ماہرین معاشیات کی کہی ہوئی باتوں کو سچ ہوتا دیکھتا ہوں۔ ان دھرنوں نے پاکستانی معیشت کو شدید نقصان پہنچایا اور ہماری برآمدات جو دو سال پہلے 25 ارب ڈالر تھیں، اب سکڑ کر22 ارب ڈالر رہ گئی ہیں۔سید خورشید شاہ کو دھرنے کے پیچھے سکرپٹ نظر آتا ہے، میں چونکہ سکرپٹ کے متعلق کوئی رائے نہیں دے سکتا لیکن یہ ضرور جانتا ہوں کہ سکرپٹ ہو یا نہ ہو، یہ دھرنے ملکی معیشت کا جنازہ بہرحال نکال دیں گے۔ 17 جون کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کی برسی ہوتی ہے۔ پچھلے سال کی طرح اس سال بھی ڈاکٹر طاہر القادری نے اس موقع پر لاہور میں دھرنا دیا جو اسی رات ختم کر دیا لیکن ساتھ ہی مقدمہ فوجی عدالت سے چلانے کا مطالبہ بھی داغ دیا اور بعد میں دوبارہ دھرنا دینے کی دھمکی بھی دے ڈالی۔ لاہور کی مال روڈ کی ویسے بھی قسمت یہی ہے کہ آئے دن کے دھرنوں اور احتجاجوں سے تاجروں کا کاروبار ٹھپ رہے ، سول سیکریٹریٹ، ہائی کورٹ اور ضلع کچہری سمیت بہت سے سرکاری دفاتر کے سائلین، ملک کے سب سے بڑے میو ہسپتال جانے والے مریض اور تعلیمی ادارے کے طلبہ و طالبات ان دھرنوں کی وجہ سے سخت اذیت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔اسی طرح عمران خان بھی کبھی کبھی اشارہ دیتے ہیں کہ عید کے بعد وہ احتجاجی سیاست کا ایک نیا راؤنڈ شروع کریں گے۔ میرے خیال میں اگر دھرنوں کی سیاست جاری رہی تو اس کا ملک کو نقصان ہو گا اس لئے عظیم تر قومی مفاد کا تقاضا یہ ہے کہ احتجاجی سیاست سے گریز کرتے ہوئے دھرنوں کی سیاست کو پنپنے نہ دیا جائے۔سیاسی معاملات پارلیمنٹ میں اور دوسرے جھگڑے عدالتوں میں نمٹائے جائیں۔

مزید :

کالم -