نکالوں ان افغانیوں کو یہاں سے’ڈو مور‘ کی رٹ لگانے والے بڑے یورپی ملک سےا یسی خبر آگئی کہ آپ بھی کہیں گے ’ایکسکیوز می، آپ بھی؟‘
برلن(نیوز ڈیسک)جنگ سے تباہ حال افغانستان کے شہریوں کی ایک بڑی تعداد محفوظ مستقبل کی تلاش میں یورپی ممالک کا رُخ کرچکی ہے، لیکن ان مجبور لوگوں کی آڑ میں بہت سے ایسے لوگ بھی یورپی ممالک پہنچ چکے ہیں جن کے اصل مقاصد کچھ اور ہیں۔ جرمنی کا شمار بھی ان ممالک میں ہوتا ہے جس نے افغانستان سے آنے والوں کو بڑی تعداد میں پناہ دی لیکن جن افراد کو پناہ کا حقدار قرار نہیں دیا گیا انہیں واپس بھیجنے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا ہے۔ افغانستان میں دہشتگردی کے حالیہ واقعات کے پیش نظر یہ سلسلہ عارضی طور پر رکا تھا لیکن اگلے ہفتے سے افغان شہریوں کی جرمنی سے واپسی کا سلسلہ دوبارہ شرع ہورہا ہے۔
اسرائیل عرب بچوں کے ساتھ ایسا کیا ظلم کرتا تھا جس کی پوری تاریخ میں مثال نہیں ملتی؟ پہلی بار حقائق منظر عام پر آگئے
ویب سائٹ DW.COM کی رپورٹ کے مطابق جرمن حکومت کا کہنا ہے کہ مجرموں اور امن و سلامتی کیلئے خطرہ سمجھے جانے والے افراد کو جرمنی میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے جبکہ وہ تمام افراد جو قانون کے مطابق اپنی شناخت ثابت نہیں کرسکتے انہیں بھی پناہ نہیںدی جائے گی۔ اس پالیسی کے تحت آنے والے دنوں میں سینکڑوں افغانیوں کی جرمنی سے افغانستان واپسی متوقع ہے۔
دوسری جانب جرمنی کے کئی ممتاز سیاستدانوں اور انسانی حقوق کے گروپوں کی جانب سے چانسلر اینگلامرکل کی شدید مخالفت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ افغانستان میں امن وامان کی خراب صورتحال کے باعث اس کے شہریوں کو واپس بھیجنا انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ایک انسانی حقوق تنظیم کے سربراہ گنتر برک ہارٹ کا کہنا تھا کہ یہ بات افسوسناک ہے کہ جرمن حکومت بڑی تعدادمیں افغان شہریوں کو واپس بھیجنے کا سلسلہ دوبارہ شروع کررہی ہے۔ جن لوگوں کے پاس پاسپورٹ نہیں ہے انہیں واپس بھیجا جارہا ہے جبکہ سکیورٹی کیلئے خطرہ قرار دئیے گئے لوگوں خو بھی واپس بھیجا جارہا ہے اس پالیسی سے بہت سے ایسے افغان شہری بھی متاثر ہوں گے جن کی جانوں کو افغانستان میں واقعی خطرہ لاحق ہوسکتا ہے اور انہیں واپس بھیجنا انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہوگی۔
یاد رہے کہ جرمنی رواں سال کے پہلے چار مہینوں میں 8ہزار 620 تارکین وطن کو واپس بھیج چکا ہے۔ گزشتہ سال بھی 25 ہزار ایسے افراد کو ان کے ممالک واپس بھیجا گیا جن کی پناہ کی درخواست جرمن حکومت نے رد کر دی تھی۔