ہائیکورٹ: مسیحی میرج ایکٹ کی شق 7کو بحال کرنے کا تفصیلی فیصلہ جاری
لا ہور (نامہ نگار خصوصی)لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے بیوی پر بد چلنی کا الزام لگا کر طلاق دینے کے خلاف دائر درخواست منظور کرتے ہوئے مسیحی میرج ایکٹ کی شق 7کو بحال کرنے کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے،عدالت نے 1981ء کے وفاقی نظر ثانی ڈیکلریشن آرڈیننس کوآئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے کالعدم قراردیاہے۔35صفحات پرمشتمل تحریری تفصیلی فیصلہ میں قرار دیا گیا ہے کہ 1869ء کے مسیحی میرج ایکٹ کی شق 7کو ختم کرنے کے باعث یہ قانونی سقم پیدا ہوا تھا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ مسیحی میرج ایکٹ کی شق 7ختم کرنے سے آئین کے آرٹیکل 270کے تحت مسیحیوں کو دئیے گئے حقوق شدید متاثر ہوئے۔ درخواست گزار امین مسیح کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا تھا کہ مسیحی میرج ایکٹ کی شق بنیادی حقوق اور اخلاقیات کے عالمی قوانین سے متصادم ہیں۔ 1981ء کا وفاقی نظر ثانی ڈیکلریشن آرڈیننس اور مسیحی میرج ایکٹ کی بعض شقوں کے تحت کوئی بھی عیسائی اس وقت تک اپنی بیوی کو طلاق نہیں دے سکتا جب تک اس پر بد چلنی کا الزام لگا کر اسے ثابت نہ کر دے۔مسیحی میرج ایکٹ میں قانونی سقم کی وجہ سے پاکباز مسیحی خاتون کو بھی طلاق لینے یا علیحدگی اختیار کرنے کے لئے بدکرداری کے الزامات کو قبول کرنا پڑتا ہے جس کی بناء پر علیحدگی اختیار کرنے کے بعد مسیحی معاشرے میں انکے بچوں کو قدم قدم پر شرمندگی اور کوفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو کہ بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ عدالت نے تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے مسیحی میرج ایکٹ کی شق 7کو بحال کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔