ایمبولینس کو رستہ دینا چاہئے کہ نہیں؟
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ ہر زخمی اور شدید بیمار شہری جسے ایمبولینس لیکر جاری ہو بِلا تمیز مذہب و ذات اور رنگ و نسل ہمارا پیارا تصور ہو گا۔ اگر ہم ایسا نہیں سوچیں گے تو وہ اللہ کو پیارا بھی ہو سکتا ہے۔لہٰذا بحیثیت انسان ہم کو اپنا فرض ادا کرنے کیلئے ہمہ وقت کوشش کرنی چاہیے اور ایمبولینس کی بِلا رکاوٹ سروس کیلئے راستوں اور شاہرات پر رکاوٹیں دور کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے رہنا چاہیے۔
ایمبولینس سروس ہر شہری کی زندگی کا حصہ ہے۔ کسی لمحے اس کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ ایمبولینس سروس کی اہمیت جان بچانے ادویات سے پہلے ہے۔ لیکن عوام میں ایمبولینس کو راستہ دینے سے متعلق شعور اور تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ قومی سطح پر ایمرجنسی وہیکل سینس"How to response or emergencاورemergency vehical sense" آگاہی مہم شروع کی جائے۔ تمام سڑکوں پر تصویری پیغامات پر مبنی ہورڈنگ بورڈز نصب کئے جائیں ۔ ایمبولینس کی اہمیت اور اسے راستہ دینے سے متعلق تعلیم پر مبنی پمفلٹ سکول اور کالجز کے رضا کار بچوں کے ذریعے چورا ہوں پر تقسیم کئے جائیں۔ مزید یہ کہ پمفلٹ کونسلرز کے ذریعے لازماً ان کے حلقہ کے ہر گھر میں تقسیم کئے جائیں۔
سکولز ، کالجز اور یونیورسٹیز طلباو طالبات کو سِوک سینس کے ساتھ ٹریفک سینس کا مضمون لازمی پڑھایا جائے جس میں ایمبولینس سروس کی اہمیت کو خصوصاً اجاگر کیا جائے۔ تاکہ یہ بچے اور نوجوان جب سڑک پر موٹرسائیکل یا گاڑی چلائیں تو وہ پوری طرح اپنی ذمہ داری سے آگاہ ہوں کہ کس طرح ایمبولینس کو فوری راستہ دے کر وہ زندگیاں بچانے میں مدد دے سکتے ہیں۔ پاکستان میں جس قدر شدید حادثات ہوتے ہیں ان میں اموات کے علاوہ بڑی تعداد شدید زخمیوں کی ہوتی ہے۔ اگر انہیں فوری طبی امداد نہ ملے تو وہ عمر بھر کی معذوری کا شکار ہو جاتے ہیں۔
آج تمام شہروں میں ٹریفک اتنی بے ہنگم ہو چکی ہے کہ مستقبل قریب میں ایمبولینس سروس کو اور زیادہ مسائل درپیش ہوں گے۔ ان مسائل کا ابھی سے تدارک کرنے کیلئے جامع منصوبہ بندی کرنا ہو گی۔ ایمبولینس کی اہمیت اور مدد کیلئے ٹی وی کمرشلز، پبلک سروس میسجز اور ایمبولینس کو راستہ نہ ملنے کے نتیجہ میں ہونے والے ناقابل جانی نقصانات پر مبنی واقعات کو کہانی اور فیچرز کی شکل میں الیکٹرانگ ،پرنٹ اور سوشل میڈیا پر عام کیا جائے۔ اساتذہ‘ والدین‘ علمائے کرام اور یونیورسٹی گریجویٹس کا کردار بہت اہم ہے جو عوام الناس میں ایمبولینس کے بارے میں تعلیم اور شعور پھیلا سکتے ہیں ان سب کی خدمات سے فائدہ اٹھانے کیلئے ہلال احمر پاکستان ایسے اداروں کے ماہرین انہیں تربیت اور تعلیم فراہم کریں۔
بوائز سکاوٹس اور گرلز گائیڈز کے علاوہ سماجی تنظیموں کو ایمبولینس سے متعلق ایجوکیشن پروگرام میں شامل کئے جانے سے مزید بہتر نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہلال احمر پاکستان جو بین الاقوامی نیٹ ورک کا حصہ ہے اور ان کے ماہرین و رضا کار ہنگامی حالات سے نمٹنے اور سوشل موبلائزیشن کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ پاکستان میں درپیش حالات و واقعات کی روشنی میں عوام الناس میں ایمبولینس کی اہمیت اور سڑکوں پر بلا رکاوٹ سروس اور مدد سے متعلق قابلِ عمل تجاویز اور سفارشات مرتب کر کے ایک کتابچہ (کورس) اور لائحہ عمل دے سکتے ہیں۔ جن پر فوری عمل در آمد تجویز کردہ شعبہ ہائے زندگی کے افراد کے ذریعے شروع کیا جا سکتا ہے۔ گو کہ موجود ہ سرکاری ایمبولینس سروس کا رسپانس ٹائم اور سروس قابل تحسین ہے مگر اس کے ساتھ پرائیویٹ ایمبولینس سروس سے منسلک افراد کی تربیت بھی بہت ضروری ہے کیونکہ ہر ایمبولینس میں موجود زخمی یا جان بلب شہری ہر کسی کا پیارا اور ہماری توجہ اور مدد کا منتظر و مستحق ہوتا ہے۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔