شفاف انتخابات۔۔۔یقین دہانیاں اور تقاضے
وزیر اعلیٰ پنجاب ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے کہا ہے کہ نگران حکومت مکمل طور پر غیر جانبدار ہے اور ہمارا کوئی سیاسی ایجنڈا تھا نہ ہے اور نہ ہی ہوگا۔ مکمل غیر جانبدار رہ کر شفاف اور منصفانہ طریقے سے عام انتخابات کا انعقاد یقینی بنائیں گے اور ہماری کارکردگی خود غیر جانبداری کی گواہی دے گی عام انتخابات کے آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انعقاد کو یقینی بنانے کے لئے متعلقہ محکموں اور اداروں کو جانفشانی اور محنت سے فرائض سر انجام دینا ہیں اور اس ضمن میں ہر طرح کے وسائل بروئے کار لا کر قومی ذمے داری کو بطریقِ احسن ادا کرنا ہے ان کا کہنا تھا کہ محدود مدت میں اپنے مینڈیٹ کے اندر رہتے ہوئے عوام کو ریلیف دینے کے لئے اقدامات کریں گے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار وزیر صنعت و تجارت انجم نثار کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کیا۔
وفاقی اور صوبائی نگران حکومتوں کی بنیادی ذمہ داری ہی منصفانہ اور آزادانہ انتخابات کرانا ہے اس لئے اگر ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ جہاں سے قومی اسمبلی کے 141 ارکان منتخب کئے جانے ہیں۔ شفاف انتخابات کے ضمن میں کوئی یقین دہانی کراتے ہیں تو یہ خوش آئند ہے اور امید کرنی چاہئے کہ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں اس پر اس کی روح کے مطابق عمل کر کے بھی دکھائیں گے۔ شفاف انتخابات کرانا ویسے تو براہ راست الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے اور اس سلسلے میں جو بھی اقدامات کرنے ہیں وہ الیکشن کمیشن نے ہی کرنے ہیں وہ تمام ادارے جن کی خدمات عام انتخابات کے لئے درکار ہیں الیکشن کمیشن کے احکامات کے پابند ہیں کمیشن آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے لئے جس ادارے کی خدمات ضروری سمجھتا ہے حاصل کر سکتا ہے۔
اس وقت تک کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال مکمل ہو چکی ہے اور ان کے استرداد یا منظوری کے خلاف اپیلوں کی سماعت جاری ہے جس کے بعد حتمی فہرست کا اعلان ہوگا۔ تاہم اس دوران بعض شکایات بھی سامنے آ رہی ہیں، ان کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے کیونکہ نظر انداز کرنے کی صورت میں اگر کسی امیدوار کو شکایت پیدا ہو گی تو اس کا اثر انتخابات کی شفافیت پر ہی پڑے گا قومی اسمبلی کے سپیکر سردار ایاز صادق کی جو حلقہ این اے 129 سے امیدوار ہیں یہ شکایت سامنے آئی ہے کہ ریٹرننگ آفیسر مخالف امیدوار کا حامی ہے سردار ایاز صادق نے اپنی شکایت چیف الیکشن کمشنر سے بھی کر دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں ذاتی طور پر کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال کے لئے بلایا گیا جبکہ مخالف امیدوار کو حاضری سے استثنا دے دیا گیا ان کا کہنا ہے کہ ہمارے احتجاج پر انہیں بلایا گیا۔ پیش ہونے پر ریٹرننگ افیسر نے کہا کہ آپ کیوں آئے آپ کے کاغذات منظور ہو چکے ہیں آپ جائیں اور جا کر اپنی انتخابی مہم چلائیں سردار ایاز صادق نے یہ شکایت بھی کی ہے کہ ان سے ایسے تو ہین آمیز سوالات کئے گئے جن کا کاغذات کی جانچ پڑتال سے کوئی تعلق نہ تھا انہوں نے ریٹرننگ آفیسر کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ سردار ایاز صادق کی شکایت کس حد تک درست ہے تاہم یہ چونکہ چیف الیکشن کمشنر کے نوٹس میں آ چکی ہے اس لئے اب ان کا فرض ہے کہ وہ اس کا ہر پہلو سے جائزہ لے کر کوئی فیصلہ کریں۔ سردار ایاز صادق اس وقت بھی سپیکر کے منصب پر فائز ہیں اور وہ الیکشن جیتیں یا ہاریں، نئی قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس کی صدارت انہوں نے ہی کرنی ہے اور جب تک نیا سپیکر منتخب نہیں ہو جائیگا تمام ہاؤس بزنس انہی کی نگرانی میں ہو گا۔ اس لئے یہ بہت ضروری ہے کہ الیکشن سے پہلے اور اس دوران انہیں کوئی شکایت پیدانہ ہو، کیونکہ اگر سپیکر کو شکایت ہوگی تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عام امیدواروں کو کیسی کیسی شکایات پیدا ہوسکتی ہیں، دوسری جانب سابق قومی اسمبلی کے قائد حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ کی ایک شکایت بھی سامنے آئی ہے جو انہوں نے پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے نام ایک خط میں کی ہے ان کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کے امیدواروں پر تحریک انصاف میں شمولیت کے لئے دباؤ ڈالا جارہا ہے اس سے پہلے یوسف رضا گیلانی بھی امیدواروں پر دباؤ کی شکایت کرچکے ہیں دباؤ کے انکشاف کے بعد بلاول بھٹو زرداری نے اپنی تقریر میں بھی اس کا تذکرہ کیا اور عہدیداروں کو کسی بھی قسم کا دباؤ قبول نہ کرنے کی ہدایت کی، اسی طرح پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل نیئربخاری کا کہنا ہے کہ نگران حکومت کا عمران خان کو غیر معمولی پروٹوکول دینا سوالیہ نشان ہے انہوں نے یہ بھی کہا کہ وزیر داخلہ پی ٹی آئی کے کارکن کی حیثیت سے کام کررہے ہیں وزیر داخلہ نے عمران خان کے دوست زلفی بخاری کو ان کے ساتھ عمرہ کے لئے جانے کی اجازت دی تھی جبکہ اُن کا نام بلیک لسٹ میں شامل تھا، اب چونکہ یہ مقدمہ عدالت میں ہے وہاں فیصلہ ہو جائیگا کہ کیا وزیر داخلہ کو اس انداز میں بلیک لسٹ سے زلفی بخاری کا نام نکالنے کا اختیار حاصل تھا یا نہیں، لیکن بطور نگران وزیر داخلہ اُن کے مجموعی طرز عمل پر پیپلز پارٹی کے علاوہ دوسری سیاسی جماعتیں بھی اعتراض کررہی ہیں کیونکہ اُن کا عمران خان کی ایک فاؤنڈیشن سے بھی تعلق بتایا جاتا ہے، وزیر اعظم ناصر الملک کو اس امر کا جائزہ لینا چاہئے کہ جس شخص کا عمران خان سے اتنا قریبی تعلق تھا انہیں وزیر داخلہ کیوں بنادیا گیا؟ ایسی صورت میں مخالفین کا اعتراض تو بنتا ہے۔
اوپر مختلف نوعیت کی جن شکایات کا تذکرہ کیا گیا ہے اُن سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ انتخابات سے پہلے بعض لوگوں کے لئے حکام کا نرم گوشہ سامنے آرہا ہے اور سیاسی جماعتیں اب بھی شکایت کررہی ہیں کہ اُن کے ارکان کو زبردستی تحریک انصاف میں بھیجا جارہا ہے اس سے پہلے مسلم لیگ (ن) کے بہت سے ارکان جس انداز میں قطار اندر قطار تحریک انصاف میں شامل ہوئے اُن سے بھی لگتا ہے کہ اس پردۂ زنگاری میں کوئی معشوق تھا جو ان ارکان کو ترغیب و تحریص کے ذریعے تحریک انصاف میں بھیج رہا تھا اگرچہ ان لوگوں کے جانے سے خود تحریک انصاف میں ایک بحران کی کیفیت پیدا ہوگئی اور نئے آنے والوں اور پرانے ورکروں کے درمیان اب ایک جنگ چھڑی ہوئی ہے لیکن اگر یہ کام معمول کے مطابق ہورہا ہوتا تو کسی کو اعتراض نہ تھا، چونکہ تحریک انصاف میں جانے والوں کے روئے سے یہ تاثر پختہ ہوا کہ انہیں اس جانب ہانکا جارہا ہے اور اب خورشید شاہ اور یوسف رضا گیلانی بھی دباؤ کا ذکر کررہے ہیں اسلئے نگران وزیر اعظم ناصر الملک کا فرض ہے کہ ایسی شکایات کا جائزہ لیں کہ عین کاغذاتِ نامزدگی داخل کرنے کے ہنگام اس طرح کے دباؤ کا مقصد کیا ہے اگرچہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں شفاف انتخابات کے دعوے کررہی ہیں اور سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ نے بھی تازہ ترین یقین دہانی کرائی ہے لیکن یقین دہانی اور زمینی حقائق کے درمیان باہم ربط ضبط ہوگا تو ہی لوگ ان کی بات پر یقین کریں گے اسلئے دباؤ کی شکایات کا ازالہ ہونا چاہئے۔