جو ذرہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے

جو ذرہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے
جو ذرہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کسی کی ذاتی زندگی میں جھاتیاں مارنا کوئی اچھی عادت نہیں ۔ سلجھے ہوئے لوگوں کے درمیان میرا اپنا موقف بھی یہی ہے ، مگر اس کا کیا کِیا جائے کہ الیکشن کے موسم میں جو لطف سیاسی رہنماؤں کے قصے کہانیاں بیان کرنے میں ہے وہ نظریاتی بحثوں میں نہیں ۔

اس کا ایک سبب تو دوسروں کے کھوج میں رہنے کی جبلی لذت ہے ۔ دوسرے جب زیر بحث شخصیت قومی ملکیت خیال کی جا رہی ہو تو عوامی کارکردگی کے پیچھے اُس کی ہر ذاتی حرکت ایک علامتی مفہوم کی حامل دکھائی دینے لگتی ہے ۔

اِسی لیے تو یونانی المیہ ڈراموں سے لے کر گلستان سعدی کی ’در سیرت پادشاہان‘ تک جتنا ادب لکھا گیا ، اُس میں توجہ کا مرکز قد آدم سے بڑے کردار ہی ٹھہرتے ہیں ۔ پھر بھی کہیں کہیں لگتا ہے کہ یہ تو عام زندگی کی کہانیاں تھیں جنہیں انسان کی کسی نفسیاتی ضرورت نے دیو مالا بنا دیا ۔
قیام پاکستان کے بعد پیدا ہونے والی پہلی نسل نے جب آنکھ کھولی تو اُس وقت تک عالمی سیاست پہ انہی دیو مالائی کرداروں کا راج تھا ۔ برطانیہ کے ونسٹن چرچل ، امریکی صدر آئزن ہاور ، مصر کے جمال عبدالناصر اور ’گراں خواب چینی سنبھلنے لگے‘ والے چئیرمین ماؤزے تنگ ۔ یہ سب اوسط انسان کی لمبائی چوڑائی سے عظیم تر لوگ سمجھے جاتے تھے ۔

پاکستانی دل و دماغ پہ قائد اعظم کی شخصیت کا سحر طاری تھا جبکہ بھارتی اپنے وزیر اعظم ’چاچا نہرو‘ کی محبت کے اسیر تھے ۔ اِس سے چند برس پہلے تک کئی ذہنوں میں بیت المقدس میں مدفون محمد علی جوہر کے الفاظ گونجتے رہے کہ مجھے قبر کے لئے جگہ دو ، مَیں غلام ہندوستان میں واپس نہیں جاؤں گا ۔

یہاں تک کہ لوگوں نے مہاتما گاندھی کی بکری کے بارے میں کیلے اور سیب کھانے کی داستانیں مشہور کرکے اُس کے دودھ کو مِلک شیک اور بکری کو جادوئی کردار میں بدل دیا تھا ۔
کسی شخصیت کو بڑا بنانے میں اُس کی اپنی صلاحیتوں کو زیادہ دخل ہوتا ہے یا حالات و واقعات کی ترتیب کو ؟ ابھی اس سوال کا جواب نہیں ملا تھا کہ وطنِ عزیز کی بساط اقتدار اُن کرداروں سے سجنے لگی جنہیں ذوالفقار علی بھٹو نے اسیری کے دوران ’سیاسی مسخرے‘ کہا تھا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ مسخرے سرکاری دفتروں ، یونیورسٹیوں اور اسپتالوں میں بھی جا گھسے ۔

کلاس روموں میں لائق پروفیسروں کی بجائے ’نیٹ‘ سے ’تاڑ تاڑ‘ کر ملٹی میڈیا کا کھیل کھیلنے والے انسٹرکٹر اور ٹمپریچر لینے کے بعد چھاتی اور کمر سے سٹیتھو سکوپ جوڑ کر لمبی ’آ آ۔۔۔ آآ‘ کرانے والوں کی جگہ وہ معالج جن کے نام کی تختی جوتوں کے بل بورڈ سے بڑی ہوتی ہے ۔ یوں ہیرالڈ میکملن کی کرسی پہ گورڈن براؤن یا جان کینیڈی کی جگہ باراک اوباما بیٹھ گئے تو کیا برا ہوا ۔
جن لوگوں نے ماضی کے برطانوی سیاستدانوں کو دیکھا ہے ، وہ جانتے ہیں کہ اپنی کابینہ کی واحد ’مرد‘ رکن مارگریٹ تھیچر کا سامنا کرنے اور اُن کے نرم خو جانشین جان میجر سے بات کرنے میں کتنا فرق تھا ۔ مسز تھیچر مجھے ہمیشہ ایک ایسی سخت گیر استانی لگیں کہ ذرا آپ نے مرضی کے خلاف حرکت کی اور انہوں نے پوری جماعت کو رگید کے رکھ دیا۔

1989کے اوائل میں پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم کے طور پر لندن میں بے نظیر بھٹو کے ساتھ ملنے کا اتفاق ہوا تو مَیں اُن کے طبقاتی پس منظر کی بنا پر قدرے ’نک چڑھے‘ رویہ کی توقع کر رہا تھا ۔

اس کے برعکس ، رٹز ہوٹل کی ایک نجی تقریب میں ، جہاں بی بی سی کی طرف سے مَیں اپنے سینئر ساتھی محمد غیور کے ساتھ شریک ہوا ، غیر ملکیوں کے چلے جانے پر جب بے نظیر بھٹو کے بقول صرف اپنے لوگ رہ گئے تو اُن کی یہ صاف گوئی ہمیں حیران کر گئی کہ ہاں ، ہماری حکومت کو بس دو ڈھائی سال ہی ملیں گے۔

میرے ساتھی کے سوال پر کہ آپ کے وزرا کی مالی بے ضابطگیوں کے چرچے شروع ہو گئے ہیں ، محترمہ نے یہ بھی کہا کہ غیور صاحب ، اِنہوں نے بہت تکلیفیں اٹھائی ہیں ، جو کرنا ہے کر لیں ۔
یہ تھی ہماری پہلی خاتون وزیر اعظم کی سادہ لوحی ۔ بعد کے مرحلہ پر خود میری طرف سے اُن کے حق میں ایک ایسی ہی نیم شعوری حرکت نے اچھا خاصا مسئلہ کھڑا کر دیا ۔ منظر ہے لاہور پریس کلب کا ، جہاں ثقلین امام منتخبہ صدر ہیں اور بے نظیر بھٹو دوسری بار محروم اقتدار ہونے پر ’میٹ دی پریس ‘ میں ہماری مہمان ہیں ۔

نجم سیٹھی کی چڑیا کی طرح ثقلین امام کو خدا جانے کِس ہُد ہُد نے یہ مشورہ دیا کہ پینل میں شاہد ملک کو بھی شامل کر لو ۔ اِس پروگرام کی ابتدا میں پانچ سے دس منٹ تک بولنے کی روایت تھی ، جس کے بعد سوالات کا سلسلہ ہوتا ، لیکن ہماری مہمان نے جو یک طرفہ گفتگو کا آغاز کیا ہے تو خدا جھوٹ نہ بلوائے ، پورے پچاس منٹ ایک سانس میں کھینچ گئیں ۔ ’’محترمہ ، دل اب بھی یہی چاہتا ہے کہ آپ بولتی جائیں اور ہم سنتے رہیں ، سوال جواب پھر کسی روز کرلیں گے‘‘ ۔
میرے اِس جملہ پر لاہوری صحافیوں کے مجمع سے تحسین کا شور تو بلند ہوا ، مگر پریس کلب کے صدر نے ذرا دھیمے لہجہ میں یہ کہہ کر درجہ ء حرارت کو بڑھنے سے روک دیا کہ شاہد ملک منفرد حسِ مزاح کے مالک ہیں اور گورنمنٹ کالج میں میرے ٹیچر تھے ۔

سچ یہ ہے کہ میرے ’عہد استادی‘ میں ثقلین امام ایک شائستہ مزاج طالب علم کے طور پہ ضرور جانے گئے ، لیکن وہ میرے براہ راست شاگرد نہیں تھے ۔ رہ گئی حس مزاح والی بات تو عملی طور پہ اِس کا مطلب یہ تھا کہ ’کھسکا ہوا ‘ آدمی ہے ، جانے دیجئے ۔

سنتے ہی بے نظیر صاحبہ نے کہا کہ مسٹر بی بی سی ، یوں لگتا ہے کہ آپ میری پالیسیوں کو پسند نہیں کرتے ۔ اس پہ میرے اور اُن کے درمیان دو معنی خیز جملوں کا تبادلہ ہوا جنہیں دہرانے سے اس لئے قاصر ہوں کہ اس بیڈمنٹن میں تیسرا جملہ پھینکنے کے لئے محترمہ اب اِس دنیا میں نہیں ۔
بعض لوگ کہیں گے کہ کسی مہمان سے میرا یہ منہ پھٹ رویہ ہماری تمدنی روایت کے منافی اور ناقابل برداشت ہے ۔ میرے پاس اس کا کوئی خاطر خواہ جواب نہیں ، سوائے اس کے کہ میری پیشہ ورانہ تربیت میں سچ بولنے کی ذمہ داری تمدنی روایت کی پاسداری سے زیادہ اہم ہے اور اگر دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو صحافی کا ووٹ سچ کے پلڑے میں ہو نا چاہئیے ۔ پریس کلب میں تمدنی روایت کے تقاضے یوں پورے ہوئے کہ میں نے خوشدلی سے کہا ’’ چلئے پہلا سوال میں ہی کر لوں اور وہ ہے جموں سے سرینگر تک ریلوے لائن بچھانے کے تازہ بھارتی منصوبے کے بارے میں ۔ ۔۔‘ ‘ ’’تقریب ختم ہوتے ہی بے نظیر صاحبہ اٹھ کر میری طرف آئیں اور نہایت شائستگی سے کہنے لگیں ’’مَیں نے جلد بازی میں کچھ کہا جو مجھے نہیں کہنا چاہئیے تھا‘ ‘ ۔ ’’یہ ایک طویل تر عمل کا حصہ ہے‘‘ ۔ مَیں نے خوشگوار جانبداری سے جواب دیا ۔
اسی خوشگوار غیر جانبداری سے جڑا ہوا ایک چھوٹا سا ڈرامہ اِس سے پہلے ہوا تھا ۔ مراد ہے بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کا زمانہ ۔ تیسری بار منتخب اور پھر عدالتی حکم سے نا اہل ہو جانے والے وزیر اعظم کے ساتھ مَیں چودھری شجاعت حسین کے گھر میں صوفے پہ بیٹھا ہوا ہوں ۔ مجھے ماڈل ٹاؤن کے مکان میں ایک پریس کانفرنس کے بعد میاں نواز شریف اور چودھری شجاعت کے ہمراہ اُس وقت کی متحدہ مسلم لیگ کے سکرٹری اطلاعات مشاہد حسین سید با اصرار ساتھ لے کر آئے ہیں ۔ چوہدری صاحب اور مشاہد حسین کے اچانک منظر سے غائب ہو جانے کے بعد دیواروں نے جو مکالمہ سنا آپ بھی سن لیجئیے ۔

’’شاہد صاحب ، آپ ہمارا بہت خیال رکھتے ہیں‘‘ ۔ ’’میاں صاحب ، میں جو دیکھتا ہوں کہہ دیتا ہوں‘ ‘ ۔ ’’ نہیں ، چوٹی زیریں کے سفرِ جمہوریت میں آپ نے ہمارا بڑا خیال رکھا‘‘ ۔ ’’سر آپ کو کبھی شکائت نہیں ہوگی کہ مَیں نے آپ کے ساتھ بے انصافی کی ہے ‘ ‘ ۔
اس مرحلے سے آگے ’تمدنی کام‘ کی قلمرو شروع ہونے والی تھی ۔

چنانچہ مَیں یکدم کھڑا ہو گیا کہ سٹوری فائل کرنی ہے اور میری کار ماڈل ٹاؤن میں کھڑی ہے ، ڈرائیور سے کہئے کہ مجھے ڈراپ کر آئے ۔ ’’میں نے تو چائے کا کہہ دیا ہے‘ ‘ ۔ ’’چائے کی کوئی بات نہیں ، پھر کبھی پی لیں گے ‘ ‘ ۔ منٹوں میں ماڈل ٹاؤن اور وہاں سے دفتر پہنچ کر بی بی سی اسلام آباد میں اپنے ہمکار ظفر عباس کو فون پر ساری صورتحال سمجھائی کہ آج کی پریس کانفرنس اور اِس سے پہلے تاجروں کی حکومت مخالف ہڑتال کی تفصیل مجھ سے لے لیں ، مگر آج لاہور کی خبر میں اپنی آواز میں نہیں دوں گا تا کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ اُس کا خیال رکھا گیا ہے ۔ فون کال کے بعد میرے دل کی دھڑکن معمول کے مطابق ہو گئی تھی ۔ پھر حالات بدلتے چلے گئے اور ذہنوں سے باتیں محو ہونے لگیں ۔ پھر بھی مجھے اِس منفرد تجربہ کی جزئیات نہیں بھولتیں۔
تب اور اب کے درمیان بیس بائیس برس کا فاصلہ ہے ۔ بعض ادبی نقاد وں کا خیال ہے کہ ولیم شیکسپئیر کا کنگ لئیر سلطنت چھن جانے ، اولاد کے ہاتھوں کرب سہنے اور اپنی پہچان کھو دینے کے عمل میں غالباً ایک زیادہ دانشمند آدمی بن گیا تھا ؟ اسی لئے اُس نے ایک بڑے المیہ کو جنم دینے والی بیٹی اور خود اپنے آپ کے لئے ’’خدا کے جاسوس‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ۔

تو کیا شیکسپئیر ئین ہیرو کی طرح ہمارے کنگ لئیر کو بھی پے در پے ناکامیوں نے پہلے سے زیادہ سمجھ بوجھ عطا کر دی ہے ۔ جواب امکانی طور پہ اثبات میں بھی ہو سکتا ہے ۔

لیکن نصاب میں پڑھے گئے ڈراموں کے بر عکس ، پاکستانی سیاست محض پانچ ایکٹ کا کھیل نہیں ۔ یہاں تو واقعات کا دائرہ نما تسلسل آنے والے دور میں مزید چکر بھی کاٹ سکتا ہے ، اور کچھ عجب نہیں کہ اِن چکروں میں پرانے سین ہی نظر میں دوڑتے رہیں ۔

مزید :

رائے -کالم -