الیکٹیبلز آپ کی مجبوری ،مجبور عوام کس کی مجبوری
تبدیلی کے دعویدار عمران خان صاحب فرماتے ہیں الیکشن جیتنے کے لیئے الیکٹیبلز ہماری مجبوری ہیں۔واضح رہے کہ عمران خان صاحب اپنی ہر تقریر سے پہلے سورہ فاتحہ کی دو آیات کا ترجمہ ضرور پڑھتے ہیں۔”اے اللہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں“
بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
پاکستان عوامی تحریک کے چئرمین ڈاکٹر طاہرالقادری نے مروجہ انتخابی عمل کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا ہے ،مرکز منہاج القرآن لاہور میں پرہجوم کانفرنس سے خطا ب کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ الیکٹیبلز سب کی مجبوری ہیں ، عوام کسی کی مجبوری نہیں ہیں تبدیلی کا نام لینے والوں سے پوچھتا ہوں اگر الیکٹیبلز آپ کی مجبوری ہےں تو دھرنے دے کر عوام کو کیوں ذلیل کرتے رہے ھیں۔ ہم اس دھاندلی زدہ نظام، آئین اور قانون کو کچلنے والے نظام کا بطور پارٹی حصہ نہیں بنیں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ جو لوگ اس گندے نظام کے خلاف دھرنے دیتے رہے آج وہ اس نظام کے امیدوار ہیں۔تو تبدیلی کا نعرہ لگانے کی کیا ضرورت تھی۔
ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان دھرنے کے دنوں میں سیاسی کزن کے طور پر مشہور ہوئے تھے ، عام انتخابات کے حوالے سے توقع کی جارہی تھی کے دونوں جماعتیں کوئی مشترکہ لائحہ عمل پیش کرینگی۔مگر ڈاکٹر طاہرالقادری کی پریس کانفرنس کے بعد اسکا رہا سہا امکان بھی ختم ہو گیا ہے۔
دوسری طرف خان صاحب شروع ہی سے سولو فلائٹ کے قائل ہیں اور اسکا مظاہرہ وہ کئی بار کر چکے ہیں۔آپ انکی سیاسی تاریخ دیکھ لیں وہ دوسری جماعتوں سے شامل ہونے والے تمام امیدواروں کو ٹکٹ دے دینگے مگر کسی ہم خیال جماعت سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی طرف کبھی نہیں جائیں گے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری کی جماعت پاکستان عوامی تحریک بطور پارلیمانی جماعت اتنی کامیاب نہیں سمجھی جاتی اور 2002 کے انتخابات میں ڈاکٹر طاہرالقادری صرف ایک نشست سے کامیاب ہوئے تھے مگر اسی الیکشن میں خان صاحب کی جماعت کو بھی میانوالی سے صرف ایک ہی سیٹ مل سکی تھی جس پر خان صاحب ہی جیتے تھے۔بطور پریشر گروپ یا ریفارمر کے طور پر پاکستان عوامی تحریک یا تحریک منہاج القرآن بہت ایکٹو ہے۔اس تنظیم کے لیول کی اسٹریٹ پاور شاید ہی کسی اور کے پاس ہو ۔دوسری بات انکے کارکنان کی کمٹمنٹ اور قیادت پر اعتماد مثالی ہے جسکا مظاہرہ سانحہ ماڈل ٹاون اور دھرنوں میں دیکھا جا سکتا ہے
ایک طرف ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنے اصولی موقف کا اظہار کر کے انتخابی عمل سے علیحدگی کا ذکر کیا ہے دوسری طرف تبدیلی کی دعویدار حصول اقتدار کے لیئے ہر انتہا تک جانے کو تیار نظر آرہی ہیں۔ہو سکتا ہے عمران خان صاحب آج ان الیکٹیبلز کا سہارا لے کرذات برادری کی سیاست کر کے قیمے والے نان اور بریانی کی پلیٹ کھلا کر الیکشن جیت جائیں اور شاید کمزور سی حکومت بھی بنا لیں مگر اس سوال کا جواب تشنہ ہی رہے گا کہ اگر خان صاحب کی مجبوری بھی الیکٹیبلز ہی ہیں اور انہوں نے بھی اقتدار میں آنے کے لیئے روایتی ہتھکنڈے ہی استعمال کرنے تھے تو احتساب کا نعرہ بلند کرنے کی کیا ضرورت تھی ۔پہلے سنتے آئے تھے کہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہوتا ہے ۔اب سنتے ہیں الیکشن جیتنے کے لیئے کسی بھی جائز ناجائز حربے کا استعمال جائز ہے۔
خان صاحب صادق امین امیدواروں کی جس کھیپ کے ساتھ سیڑھیاں چڑھ رہے ہیں انہوں نے اپنے بوجھ سے تبدیلی کو مزید فرسودہ اور شکستہ کر دینا ہے۔ویسے بھی یہ اے ٹی ایمز کا الیکشن ہے اس میں عوام کہاں سے آگئے۔ظاہر ہے جو پانچ دس کروڑ لگا کر الیکشن میں حصہ لے گا وہ خواص میں سے ہی ہوگا۔مجبور عوام کی مجبوری کون سمجھے گا ۔عوام کے مطابے ابھی تک نالیاں پکی کروانے۔ سڑک بنانے۔ پانی۔ بجلی۔ گیس کی بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے ہیں۔ہا ں جس دن عوام نے آئین پاکستان میں دئیے ہوئے اپنے بنیادی حقوق مانگنے شروع کر دئیے اس دن سے پاکستان بدلنا شروع ہوگا۔کیونکہ بدلے گا نظام تو بدلے گا پاکستان۔
..