میثاقِ معیشت سے پہلے میثاقِ سیاست
قومی اسمبلی کے رکن اور سابق قائد حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ وزیراعظم اگر اپوزیشن کے ساتھ میثاقِ معیشت چاہتے ہیں تو خود رابطہ کریں،اُن کا کہنا تھا کہ ہماری تجویز کو کمزوری سمجھا گیا اور حکومتی ارکان نے مصالحت کی بات کو این آر او مانگنے کا رنگ دیا، سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ انہوں نے آٹھ سال این آر او نہیں مانگا، اب کیا مانگیں گے، تاہم اگر حکومت اپوزیشن کے ساتھ میثاقِ معیشت کرنا چاہتی ہے تو ہم اس پر غور کے بعد موقف اختیار کریں گے۔ تحریک انصاف کے قومی اسمبلی میں چیف وہپ عامر ڈوگر اور علی محمد خان نے خورشید شاہ اور سابق سپیکر سردار ایاز صادق سے ملاقاتیں کیں اور میثاقِ معیشت پر تبادلہ ئ خیال کیا، ایاز صادق نے کہا کہ حکومتی رویہ ٹھیک ہوا تو ملکی مفاد میں میثاقِ معیشت کیا جا سکتا ہے۔مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کا کہنا ہے کہ اُن کی رائے میں میثاقِ معیشت،مذاقِ معیشت ہے اور وہ اس معاملے پر اپنی جماعت کے صدر(اور چچا) شہباز شریف سے متفق نہیں۔
خیالات کی اِس رنگا رنگی سے اندازہ ہوتا ہے کہ میثاقِ معیشت کی جو تجویز قائد حزبِ اختلاف اور مسلم لیگ(ن) کے صدر شہباز شریف نے بجٹ پر اپنی بحث کا آغاز کرتے ہوئے پیش کی تھی، وہ کسی ٹھوس شکل میں ڈھلتی ہوئی اِس لئے نظر نہیں آتی کہ یہ تجویز جب سامنے آئی تو سپیکر اسد قیصر نے اسے ایک اچھی تجویز قرار دیا اور وہ بات آگے بڑھانا بھی چاہتے تھے۔انہوں نے اس ضمن میں وزیراعظم سے بات کی، جنہوں نے اس معاملے پر کمیٹی بنا دی،لیکن ایک طرف تو کمیٹی بن رہی تھی، جبکہ دوسری جانب تحریک انصاف کے عقاب اس تجویز کی توجیہہ یہ کر رہے تھے کہ اس کے پردے میں این آر او مانگا جا رہا ہے۔ آصف علی زرداری نے بھی حساب کتاب بند کر کے آگے بڑھنے کی جو بات کی تھی اس کا بھی یہ کہہ کر مذاق اڑایا گیا کہ وہ این آر او مانگ رہے ہیں تاہم انہوں نے وضاحت کر دی ہے کہ انہوں نے آٹھ سال سے ایسا نہیں کیا تو اب کیا کریں گے، ایک وزیر کا کہنا تھا دونوں میں سے ایک کو ”ڈھیل“ مل جائے گی۔ غالباً اتنی بہت ساری تاویلات سامنے آنے کے بعد ہی مریم نواز نے بھی اس معاملے پر اپنی رائے دینا ضروری سمجھا، اب ان کی دو ٹوک رائے کا منطقی نتیجہ تو یہی نکلے گا کہ پارٹی کے اندر بھی اس معاملے پر اختلاف رائے ہو جا ئے گا، کچھ لوگ میثاقِ معیشت میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھیں گے اور دوسروں کا خیال مریم نواز کے قریب قریب رہے گا،جنہوں نے اسے ”مذاقِ معیشت“ قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔
دراصل سیاسی محاذ آرائی کی موجودگی میں میثاقِ معیشت کا خواب نہیں دیکھا جاسکتا، ایک جانب اگر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سیاسی زور آزمائی زوروں پر ہو،ایک دوسرے کے خلاف گفتنی اور ناگفتنی سب کچھ کہا جا رہا ہو، بعض سینئر رہنما خصوصی طور پر اس کام پر مامور ہوں کہ انہوں نے الفاظ کی اِس جنگ کو ٹھنڈے نہیں ہونے دینا اور جونہی یہ نظر آئے کہ دہکتے ہوئے کوئلوں کی حدّت میں ذرا کمی آ رہی ہے اور کسی جانب سے کوشش کی گئی ہے کہ اس آگ کو ذرا سا ٹھنڈا کیا جائے،اسی وقت ایسے شعلہ بار الفاظ کا تیل چھڑنا ضروری ہے کہ آگ دوبارہ بھڑکے، اب تک یہی محسوس کیا گیا ہے کہ جونہی ایسے آثار پیدا ہوتے ہیں،فریقین کے جانثار کوئی نہ کوئی ایسی بات کر دیتے ہیں، جس پر طبع آزمائی پھر شروع ہو جاتی ہے،نتیجہ یہ ہے کہ شدت جذبات کہیں بھی کم نہیں ہونے پاتی،ایسے میں میثاقِ معیشت کی بات نے اعتدال پسندوں کو اپنی جانب متوجہ کیا تھا اور انہیں اس تجویز میں معقولیت نظر آئی تھی، ایسی تجویز کا منظر عام پر آنا تھا کہ عقابوں کی تندو تیز نگاہوں نے دیکھ لیا کہ کہیں اس تجویز پر بات چیت شروع ہی نہ ہو جائے اور اگر ایسا ہو گیا تو میثاقِ معیشت کرتے کرتے کہیں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان الفاظ کی شعلہ فشانیاں ہی ٹھنڈی نہ ہو جائیں،اِس لئے وہ فوراً میدان میں آئے اور کہا کہ اپوزیشن تو دراصل این آر او مانگ رہی ہے، وہ کوئی میثاقِ معیشت نہیں چاہتی، اس پر جواب آیا کہ ہم اگر صلح صفائی کی کوئی بات کرتے ہیں تو اسے این آر او کا نام دے دیا جاتا ہے،اِس لئے بات کیسے آگے بڑھے گی۔
اپوزیشن نے جو یہ مطالبہ کر دیا ہے کہ اگر حکومت میثاقِ معیشت چاہتی ہے تو وزیراعظم خود بات کریں امکانی طور پر اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وزیراعظم کہہ دیں گے کہ وہ تو کوئی بات نہیں کریں گے،چنانچہ لگتا ہے کہ میثاق کا یہ غنچہ بن کِھلے ہی مرجھا جائے گا، کیونکہ وزیراعظم کا یہ مزاج ہی نہیں کہ وہ بُردباری کی پارلیمانی روایات کو آگے بڑھائیں یا اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلیں وہ تو آج تک اس بات پر پچھتا رہے ہیں کہ انہوں نے شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین کیوں مان لیا،حالانکہ شہباز شریف کی کلغی میں سرخاب کا یہ پَر لگنے سے اُن کی حیثیت میں کوئی خاص فرق نہیں پڑا، جو لوگ انہیں چور، ڈاکو کہتے ہیں وہ اب تک ایسا ہی کہہ رہے ہیں،جو اُنہیں اپنا رہنما مانتے ہیں وہ بدستور مان رہے ہیں، مریم نواز نے اگر میثاقِ معیشت کو مسترد کیا ہے تو یہ ایک لحاظ سے اچھا ہی ہوا کہ بجائے اس کے کہ آگے چل کر یہ ہنڈیا بیچ چوراہے کے پھوٹ جاتی، بہتر ہے یہ ابھی سے ٹوٹ جائے، دراصل حکومت اور اپوزیشن کے موجودہ کشیدہ تعلقات کی موجودگی میں ایسا کوئی میثاق ہو ہی نہیں سکتا،اگر ہو گا تو ناکام ہو گا۔اگر فریقین میثاقِ معیشت میں سنجیدہ ہیں تو پہلے میثاقِ سیاست کریں، کسی کو یہ نام پسند نہ ہو تو کوئی اور نام بھی دیا جا سکتا ہے،لیکن اس کا مقصد یہ ہو کہ حکومت اور اپوزیشن باہمی احترام کے ساتھ آگے بڑھیں اور اپنی شعلہ نوائیوں کو ماضی کا حصہ بنا دیں، یہ ہو نہیں سکتا کہ آپ میثاقِ معیشت تو کریں اور ایک دوسرے کے خلاف بدزبانی بھی جاری رکھیں، ایسا میثاق چل نہیں سکتا اِس لئے پہلے سیاست میں شائستگی لانے کے لئے ایک میثاق کرلیں، پھر کسی دوسرے میثاق کی بات کریں۔