ملک کی داخلی سیاست اب بھی گرہن زدہ ہے
پاکستان میں بھی دنیا بھر کی طرح گزشتہ ہفتے سورج گرہن دیکھا گیا۔ یہ اپنی نوعیت کا منفرد اور خاصا بڑا گرہن تھا۔ تاہم وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چودھری نے اس موقع پر بھی ماضی کی طرح ملک میں ایک بڑی تعداد میں موجود توہم پرستوں کو للکارا، فواد چودھری ایسے وزیر سائنس ہیں جو محض وزیر کے طور پر ہی نہیں بلکہ ایک شخصیت کے طور پر بھی سائنس پر بھی یقین کامل رکھتے ہیں قبل ازیں انہوں نے عید کا چاند دیکھنے کے حوالے سے بھی روائیتی طرز عمل کو چیلنج کیا تھا جس میں وہ سرخرو دکھائی دیئے تھے۔ لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے بارے میں ایک تاثر یہ بھی ہے کہ یہ ”کرامات“کے ذریعے ہی تشکیل پائی اور انہیں کی بدولت قائم بھی ہے۔ جبکہ ملک کی داخلی سیاست ہنوز گرہن زدہ نظر آتی ہے۔ بالخصوص 2 ماہ قبل حکومت کے حوالے سے دارلحکومت میں جو چہ مگوئیاں ہو رہی تھیں وہ بجٹ کی تشکیل اور اسے پیش کرنے کے مراحل میں قدرے دب گئی تھیں اب دوبارہ سنائی دینے لگی ہیں جبکہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل کی جانب سے حکومتی اتحاد سے علیحدگی کے اعلان کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے پی این پی نے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ مشروط اتحاد کیا تھا۔ اختر مینگل نے بلوچستان میں بلوچوں کے حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لئے حکومت کے سامنے 6 نکاتی فارمولہ رکھا تھا جسے وزیر اعظم عمران خان نے تسلیم کر لیا تھا لیکن 2 سال گزرنے کے باوجود ان نکات پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ تاہم اختر مینگل کی جانب سے کئی بار یاددہانیوں اور ہلکے پھلکے احتجاج کے باوجود حکومت کے کان پر جون بھی نہیں رینگی بالآخر تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق اختر مینگل نے حکومت سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔ اپوزیشن اختر مینگل کے اس اقدام کو بارش کے پہلے قطرے کے طور پر گردان رہی ہے جبکہ چودھری برادران کے بارے میں وفاقی دارالحکومت میں دعوے کئے جا رہے ہیں وہ بھی شاید حکومت سے اتحاد برقرار رکھنے کے حوالے سے اب صبر کا دامن چھوڑ دیں۔ اگرچہ حکومت نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے تاکہ ناراض بلوچ رہنما اختر مینگل کو منا کر واپس لایا جائے اس کمیٹی میں وزیر دفاع پرویز خٹک اپنے سیاسی روابط کی بنا پر فعال کردار ادا کر رہے ہیں جبکہ شنید ہے کہ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی اپنے بلوچ پس منظر کی بدولت صلح جوئی کے لئے اہم کردار ادا کرنے کے لئے سرگرداں ہیں۔ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے پارلیمینٹ لاجز میں اختر مینگل کے ساتھ تفصیلی ملاقات کی ہے لیکن ہنوز کوئی بریک تھرو نہیں ہوا بلکہ بی این پی کے سربراہ اختر مینگل نے جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولنا فضل الرحمن کی رہائش گاہ پر تفصیلی ملاقات کی۔ جبکہ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن حکومت کے خلاف پہلے ہی سے تحریک چلانے کا سخت موقف اپنائے ہوئے ہیں۔ اس تناظر میں ان دونوں زیرک سیاسی رہنماؤں کے مابین بات چیت کے بارے میں یہی تاثر ہے کہ ان کی ملاقات ایک وسیع سیاسی اتحاد کی بابت پیش رفت ہو سکتی ہے اب دیکھنا ہے کہ صلح جوئی کے لئے تشکیل دیئے جانے والی حکومتی کمیٹی یا پھر چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی اس ڈیڈ لاک کو ختم کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں کہ نہیں۔ کیونکہ بی این پی کے پاس قومی اسمبلی کی 4 نشستیں ہیں اور اسی اثناء میں اگر حکومت کا کوئی دوسرا اتحادی بھی اس دنگل میں کود پڑا تو حکومت کے لئے بجٹ پاس کروانا بھی ایک اہم چیلنج بن سکتا ہے جبکہ وزیر اعظم عمران خان بار بار یہ موقف اپنا رہے ہیں کہ وہ کسی اتحادی سے بلیک میل نہیں ہوں گے حکومت کے لئے سیاسی مشکلات میں اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس بھی اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچا اس کیس میں بھی حکومت کے لئے بہت سے نشیب فراز ہیں۔ بی این پی کے سربراہ اختر مینگل کی جانب سے پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک سربراہ سابق صدر آصف علی زرداری سے روابط کی اطلاعات بھی نہایت اہمیت کی حامل ہیں۔ کورونا کے ایشو پر وفاقی حکومت اور سندھ حکومت پہلے ہی ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں دونوں حکومتیں ایسے ہولناک ماحول میں جب کورونا وائرس ملک بھر میں موت کا رقص کر رہا ہے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے پر تلی ہوئی ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان سمارٹ لاک ڈاؤن کے اپنے فلسفے پر ڈٹے ہوئے ہیں اب اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ وزیر اعظم عمران خان کو کراچی طیارہ حادثہ کی رپورٹ پیش کر دی گئی ہے جس میں پی آئی اے اور سول ایوی ایشن دونوں کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ اب حکومت پر منصر ہے کہ آئیندہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے کیا عملی اقدامات کئے جاتے ہیں بجٹ میں سرکاری ملازموں کی تنخواہ میں اضافہ نہ ہونے پر وفاقی سیکرٹریٹ میں خاصی بے چینی اور اضطراب پایا جاتا ہے۔ اسلام آباد میں جی نائن کراچی کمپنی، جی سکس، آئی ایٹ اور آئی ٹین کے علاقوں کو کورونا کیسز میں اضافہ کے باعث لاک ڈاؤن کر دیا گیا ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا دورہ کابل مثبت نتائج کا حامل نظر آ رہا ہے کیونکہ اس کے فالو اپ میں پاکستان کے خصوصی نمائندہ برائے افغانستان محمد صادق نے دوحا میں دورہ کر کے طالبان قیادت سے تفصیلی بات چیت کی تاکہ افغان ”انٹرا ڈائیلاگ“ کے عمل کو آگے بڑھایا جا سکے۔ محمد صادق افغان سیاست کو خوب سمجھتے ہیں جبکہ ان کی تمام افغان قیادت سے بھی قابل بھروسہ تعلقات ہیں جبکہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھارت سے مقبوضہ کشمیر میں رویہ کے خلاف او آئی سی کی رابطہ کمپنی کا اجلاس بلانے اور انعقاد میں کامیاب رہے۔
ملک کی داخلی سیاست اب بھی گرہن زدہ ہے،بجٹ نے افواہیں روکیں،پھر شروع ہو گئیں
کیا حکومتی مذاکراتی کمیٹی ایک بار پھر کامیاب ہو گی،اختر مینگل مان جائیں گے،ان کے اپوزیشن سے رابطوں کا کیا ہو گا؟
وزیر اعظم پر یقین اور با اعتماد بھی ہیں،کرونا بھی سہارا بنے گا،یا سرکاری پالیسی نقصان پہنچائے گی؟