ٹیکسوں میں کمی اور قرضوں میں اضافہ
سینیٹ کی فنانس سٹینڈنگ کمیٹی کو بتایا گیا کہ اگر ستمبر تک کورونا وائرس کے پھیلاؤ پر قابو نہ پایا گیا تو نئے مالی سال کا ٹیکس ہدف حاص کرنا مشکل ہو گا، بجٹ اس مفروضے پر بنایا گیا ہے کہ اکتوبر سے معیشت کی کورونا وائرس کے اثرات سے بحالی پوری طرح شروع ہو جائے گی۔ایف بی آر نے نئے مالی سال کے ابتدائی تین مہینوں (جولائی تا ستمبر) میں 960 ارب روپے ٹیکس جمع کرنے کا ہدف رکھا ہے،جس میں سے850 ارب روپے حاصل ہونے کی امید ہے، تاہم مالی سال کی باقی تین دہائیوں میں زیادہ ٹیکس جمع کرنا ہو گا تاکہ بجٹ کا ہدف4963 ارب روپے، حاصل کیا جا سکے۔ ایف بی آر کے ممبر اِن لینڈ ریونیو پالیسی ڈاکٹر حامد عتیق سرور نے کمیٹی کو بتایا کہ جب معیشت اور لوگ مر رہے ہوں تو کوئی حکومت ٹیکس جمع نہیں کر سکتی اور اگر اکتوبر تک بہتری نہیں آئی تو حکومت کو قرضوں پر انحصار کرنا ہو گا۔سینیٹ کی فنانس قائمہ کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ صحت اور تعلیم کے لئے بجٹ دوگنا کیا جائے اور قرضوں کے متعلق عالمی معاہدے پارلیمینٹ میں پیش کئے جائیں، کمیٹی نے این ایف سی میں صوبوں کے حصے پر کٹ لگانے کی بھی مخالفت کی ہے اور سفارش کی ہے کہ700 سی سی تک کی گاڑیوں پر عائد ایڈوانس انکم ٹیکس ختم کیا جائے۔کمیٹی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کی بھی خواہاں ہے۔
مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے،جن کی نگرانی میں بجٹ تیار ہوا، اپنی پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس ہی میں کہہ دیا تھا کہ نئے سال میں ٹیکس ہدف کا حصول مشکل ہو گا۔اب ایف بی آر کے ایک ذمہ دار افسر نے بھی بالواسطہ طور پر ہی سہی، یہ اعتراف کر لیا ہے کہ ٹیکس ہدف کا حصول اسی صورت میں ممکن ہے اگر ستمبر تک کورونا کا پھیلاؤ رک جائے،ایسی صورت میں معیشت یکم اکتوبر سے بحال ہو جائے گی،اُن کے اِس بیان کی روشنی میں ایسے اقدامات ضروری ہیں، جن پر عمل کر کے ستمبر تک کورونا کو کنٹرول کر لیا جائے،اِس وقت تو نئے کیسز تیز رفتاری سے بڑھ رہے ہیں، اموات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے،نئے کیسز کی تعداد کے لحاظ سے پاکستان، روس اور میکسیکو کے بعد تیسرے نمبر پر ہے،اس لحاظ سے یہ کہنا مشکل ہے کہ ستمبر تک وبا کا پھیلاؤ رک جائے گا۔ وزیراعظم نے ایک بار پھر کہا ہے کہ ہمارا اگلا مہینہ مشکل ہے،اِن حالات میں معیشت کی اکتوبر سے بحالی کی توقعات پوری ہوں گی یا نہیں،فی الحال اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا،30جون کو ختم ہونے والے مالی سال کے لئے ٹیکس کا نظرثانی ہدف5550 ارب روپے سے کم کر کے3908 ارب روپے کر دیا گیا تھا، ٹیکس حکام کو امید ہے کہ یہ ہدف حاصل ہو جائے گا،20جون تک 3800 ارب روپے کا ریونیو جمع کر لیا گیا ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے غیر ملکی قرضوں کے معاہدے پارلیمینٹ میں پیش کرنے کا جو مطالبہ کیا ہے اگر حکومت اس تجویز کو مان لے تو قرضوں کی زیادہ بہتر اور شفاف تصویر سامنے آ جائے گی اور اِس وقت قرضے جس تیز رفتاری کے ساتھ بڑھ رہے ہیں،اُن کی وجوہ بھی آشکار ہو جائیں گی۔ موجودہ حکومت جب سابقہ ادوار میں اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی تھی تو ہمیشہ قرضوں کی مخالفت کرتی رہی،اس سلسلے میں بڑے بڑے بلند آہنگ دعوے بھی کئے گئے،اپنے ان دعوؤں کی صداقت میں وزن پیدا کرنے کے لئے عمران خان نے ایک بار یہ تک کہہ دیا تھا کہ وہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کی بجائے خود کشی کر لیں گے،حالانکہ ایسے جذباتی دعوے کی کوئی ضرورت نہ تھی،پھر جب ان کی حکومت آئی تو اسے بھی آئی ایم ایف کے پاس قرض کے حصول کی خاطر جانا پڑا،اس کے بعد سے تو بجٹ پر آئی ایم ایف کی چھاپ اور زیادہ گہری ہو گئی ہے، جو اگرچہ کسی نہ کسی انداز میں پہلے بھی تھی،امید تھی کہ تحریک انصاف کی حکومت ذرا مختلف ہو گی،لیکن قرضوں کے حصول میں تو یہ سارے اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ چکی اور اب اس خدشے کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ اگر ٹیکس ہدف حاصل نہ ہوا تو مزید قرض ہی لینا پڑے گا،ہماری معیشت جن خطوط پر استوار ہو چکی ہے،ان کے پیش ِ نظر یہ کہنا مشکل ہے کہ ہم قرضوں سے جلد چھٹکارا حاصل کر سکیں گے۔یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ٹیکس ریونیو میں اضافہ ہو، جو موجودہ حالات میں ممکن نظر نہیں آتا۔
مسلم لیگ(ن) نے اقتدار چھوڑا تو ٹیکسوں سے3840 ارب روپے حاصل ہو رہے تھے، اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اس حکومت نے پانچ سال میں ٹیکس کے حصول میں 14.5فیصد سالانہ اضافہ کیا، دعوؤں کی روشنی میں تو موجودہ حکومت کی ٹیکس کارکردگی مزید بہتر ہونی چاہئے تھی، کیونکہ عمران خان نے سینکڑوں مرتبہ کہا تھا کہ اُن کی حکومت آٹھ ہزار سے دس ہزار ارب تک سالانہ ٹیکس جمع کر کے دکھائے گی،کیونکہ لوگ ٹیکس اس لئے نہیں دیتے کہ اوپر کرپٹ لوگ بیٹھے ہیں اگر وزیراعظم ایماندار ہو گا تو لوگ خوشی خوشی ٹیکس دیں گے،لیکن اپنے دو سالہ اقتدار میں حکومت اس دعوے کو عملاً ثابت نہ کر سکی،بلکہ اتنے ٹیکس بھی جمع نہیں ہو سکے جو سابق ”کرپٹ حکومت“ کے دور میں ہو رہے تھے،ٹیکس جمع کرنے کی سابقہ رفتار ہی جاری رہتی،یعنی ساڑھے چودہ فیصد اضافہ ہوتا تو اب کم از کم4400ارب روپے تو جمع ہو جاتے،لیکن رواں مالی سال میں 20 جون تک3800 ارب ہی جمع ہو سکے۔اب اگلے سال کے ہدف پر شکوک و شبہات کے سائے ابھی سے پھیلنے شروع ہو گئے ہیں،جی ڈی پی کی شرح بھی سال رواں میں منفی میں چلی گئی ہے جو ایک نیا ریکارڈ ہے،قیام پاکستان کے ابتدائی برسوں میں 1950-51ء میں یہ شرح منفی میں گئی تھی، اِس وقت ملک پر لاکھوں مہاجرین کی آباد کاری کا بوجھ تھا اور لٹے پٹے لوگوں کو بحال کرنے کے لئے وسائل دستیاب نہیں تھے،بھارت نے پاکستان کے حصے کی رقوم روک رکھی تھیں۔ امریکہ سے گندم کی شکل میں امداد ملتی تھی، ملک میں پیدا ہونے والی گندم بھارت سمگل ہو جاتی تھی،آٹے کی قلت تھی،58ء کا مارشل لا لگا تو اس کی وجوہ میں ایک وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ ذخیرہ اندوزوں نے اشیائے خوراک چھپا لی ہیں جو مارشل لاء احکامات پر باہر نکلوائی گئیں، پچھلے عشروں میں کئی سال تک پاکستان گندم میں خود کفیل رہا، اتنی گندم ہوتی تھی کہ سنبھالنے کے لئے جگہ کم پڑ جاتی تھی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب تھوڑی مقدار میں ہی سہی گندم برآمد کی گئی،اب حالت یہ ہو گئی ہے کہ سرکاری خریداری کا ہدف پورا ہونے کے باوجود نجی شعبے کو25لاکھ ٹن تک گندم درآمد کرنے کی اجازت دی گئی ہے، مہنگی درآمدی گندم جب مارکیٹ میں آئے گی تو پھر سستا آٹا کیسے دستیاب ہو گا؟اِس سوال کا جواب ابھی سے تلاش کر لینا چاہئے،کیونکہ نانبائیوں نے خبردار کر دیا ہے کہ وہ اگلے ہفتے روٹی کی قیمت بڑھا کر 10روپے کر دیں گے،ٹڈی دل کی تباہ کاریوں کی وجہ سے جس غذائی بحران کے بادل سروں پر منڈلاتے نظر آتے ہیں اس پر بھی ابھی سے غور کرنے کی ضرورت ہے،مہنگائی کے ساتھ ساتھ اگر قلت کا عذاب بھی مسلط ہو گیا تو اس سے نپٹنا بہت مشکل ہو جائے گا،سابق حکومتوں اور حکمرانوں کی خطا کاریوں کے تذکروں میں اب عوام کو زیادہ دلچسپی نہیں رہی،ویسے بھی کسی حکومت کی کارکردگی جانچنے کے لئے دو سال کی مدت کم نہیں ہوتی۔اگر اب بھی سابقین کو ہی قصور وار ٹھہرایا جاتا رہا اور اپنی کارکردگی پر توجہ نہیں دی گئی تو حالات میں بہتری کا خواب منتشر ہو جائے گا۔