انڈو۔ پیسیفک ریجن میں ایک نیا چہارگانہ اتحاد (2)
آج سے 20روز پہلے 4جون 2020ء کو انڈیا اور آسٹریلیا کے وزرائے اعظم کی ایک ورچویل (Virtual) ملاقات ہوئی جس میں طرفین نے سات معاہدوں پر دستخط کئے۔ اس خبر کی زیادہ تفصیل اور کوریج انڈین یا آسٹریلوی میڈیا پر نہیں دی گئی۔ آسٹریلوی پبلک تو امریکی اور یورپی پبلک کی طرح سٹرٹیجک اہمیت کی حامل خبروں کی بھی کوئی زیادہ سُن گُن نہیں لیتی۔ ان لوگوں کی دلچسپیاں اور روزمرہ کے معمولات ان کے کسبِ روزگار کے ارد گرد گھومتے ہیں۔ ہماری طرح وہ لوگ صبح و شام کے ٹی وی ٹاک شوز کے رسیا نہیں ہوتے۔ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ ہفتے کے پانچ دن جان توڑ کر روٹی روزی کی فکر کرتے ہیں اور چھٹے روز ایک بغل میں شراب کی بوتل اور دوسری میں اپنے بوائے یا اپنی گرل فرینڈ کو لے کر شہر چھوڑ دیتے ہیں، ساحلِ سمندر کا رخ کرتے ہیں یا سرسبز و شاداب کوہستانی علاقوں کی طرف نکل جاتے ہیں۔ چونکہ اہل و عیال وغیرہ کی فکر سے آزاد ہوتے ہیں اس لئے اس مادر پدر آزادی اور تنہائی کو جی بھر کے انجوائے کرتے ہیں …… حافظ شیرازی نے ان کا نقشہ اس شعر میں کھینچ دیا ہے:
علی الصباح کہ مردم بہ کاروبار روَند
بلا کشانِ محبت بہ کوئی یار روَند
]جب صبح ہوتی ہے اور لوگ اپنے اپنے کاروبار کی طرف نکلتے ہیں تو محبت کے مارے اپنے محبوبوں کے گلی کوچوں کا رخ کرتے ہیں [
اگر آج کے ابلاغی دور میں حافظ زندہ ہوتے تو یہ مطلع یوں موزوں فرماتے:
علی المسائے کہ مردم بہ خانہ باز آئیند
بلاکشانِ سیاست بہ ٹی وی رُو نمائیند
]شام کو جب لوگ (کام کاج کے بعد) گھروں کو واپس لوٹتے ہیں تو سیاست کے مارے ٹیلی ویژن چینلوں پر جاکر رونمائی کرتے ہیں۔[
بہر کیف یہ اشعار تو ایک طرح کا ایک تفریحی اظہار تھے۔ میں عرض کر رہا تھا کہ جب ہم لوگ پاکستان میں اپنی یومیہ سیاسیات پر بحث و مباحثہ کر کے اپنا وقت ضائع کر رہے ہوتے ہیں تو کئی ممالک کے سنجیدہ فکر لوگ اپنے اور سٹرٹیجک موضوعات کی فکر کرتے ہیں۔ 4جون کو ”ٹائمز آف انڈیا“ اور ”دی ہندو“ وغیرہ کے مطابق بھارتی وزیراعظم مودی اور آسٹریلوی وزیراعظم سکاٹ موریسن (Scot Morrision) کے درمیان ایک ورچوئل اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ دونوں اقوام کے چیف ایگزیکٹوز سات معاہدوں کی پابندی کریں گے۔ ان معاہدوں میں کہا گیا ہے کہ جب بھی ضرورت ہوئی دونوں ممالک ایک دوسرے کو اپنے فوجی مستقروں (Military Bases) تک انصرامی رسائل (Logistic Access) فراہم کریں گے۔……
اس ایک فقرے میں دو اصطلاحات قابلِ غور ہیں۔…… ویسے تو میرا خیال ہے کہ اکثر قارئین کو ان کے معانی کا ادراک ہو گا لیکن بعض شائد پوری طرح ان کے مفاہیم کا اندازہ نہ کر سکیں۔ (جو قارئین جانتے ہیں، ان سے معافی چاہوں گا)…… پہلا لفظ (یا اصطلاح) ملٹری Base ہے اور دوسرا لفظ (یا اصطلاح) انصرامی رسائی (Logistic access) ہے…… پہلے ملٹری بیس کو لیتے ہیں …… لفظ ملٹری میں مسلح افواج کی تینوں چاروں سروسز (آرمی، نیوی، ائر فورس،میرین) شامل ہیں۔ دوسرے لفظوں میں آرمی بیس، نیول بیس ائر بیس اور میرین بیس چاروں ملٹری بیسز (یا مستقر) کہلاتی ہیں۔ کسی بھی سروس کی ابتدائی تنظیم کے ”مقامِ قیام“ کو Base نہیں کہا جاتا۔ مثال کے طور پر اگر موضع نورپور میں ایک یا دو آرمی بٹالینوں کو مقیم کر دیا جائے تو یہ گاؤں ”آرمی بیس“ نہیں کہلائے گا۔ ہاں اگر کسی بڑے شہر میں ایک یا دو ڈویژن یا کوریں مقیم کر دی جائیں تو وہ چھاؤنی بن جائے گی۔اس چھاؤنی میں ٹروپس کے لئے رہائش گاہیں بھی ہوں گی، گولہ بارود کے ڈپو بھی ہوں گے، ایک بڑا فوجی ہسپتال (CMH) بھی ہوگا،ہیلی کاپٹروں کے ٹیک آف اور لینڈ کرنے کے انتظامات بھی ہوں گے، ٹریننگ کی سہولیات بھی ہوں گی، ہلکے اور بھاری ہتھیاروں کی نقل و حرکت کے لئے سڑکوں کا ایک نیٹ ورک بھی ہوگا، ٹینکوں، توپوں، بکتر بندگاڑیوں کو مقیم کرنے اور ان کے عملے کو رہائشی سہولیات فراہم کرنے کے انتظامات بھی ہوں گے۔ علاوہ ازیں ائر ڈیفنس (طیارہ شکن) یونٹوں کے قیام کا بندوبست بھی ہو گا، میزائل یونٹوں کے قیام کا سارا اہتمام بھی ہو گا اور ساتھ ہی کلوز ائرسپورٹ کے فضائی عناصر بھی ہوں گے…… اس سارے اَلا بلا کے کھانے پینے اور لوکل سیکیورٹی کا ایک وسیع نیٹ ورک اس پر مستزاد ہو گا۔تب اس شہر کو باقاعدہ ایک آرمی بیس (Base) کا درجہ دیا جائے گا۔ پاکستان میں کئی مقامات پر آرمی بیسز ہیں۔
اور اس طرح ائر بیسز بھی ہیں مثلاً سرگودھا ایک بڑی ائر بیس ہے۔ اس میں طیاروں، ان کے عملہ کی رہائش، ٹریننگ، تکنیکی دیکھ بھال، تعلیم و تدریس وغیرہ کا ایک وسیع جال بچھا ہو تو تب یہ سرگودھا شہر ائر سڑپ، ائر فیلڈ یا ائرپورٹ سے آگے نکل کر ائر بیس کہلائے گا۔ بحریہ کا بھی یہی حال ہے۔ بندرگاہ اور چیز ہے اور بحری مستقر ایک بالکل مختلف اصطلاح ہے …… میں ان جزئیات و تفصیلات کو مزید کھول کر بیان کرنے میں آپ کا زیادہ وقت نہیں لینا چاہوں گا……
ہاں دوسری اصطلاح ”انصرام“ (Logistics) کی تھوڑی سی وضاحت ضروری ہو گی۔…… کہا جاتا ہے کہ ایک فوجی سپاہی کو میدانِ جنگ میں بھیجنے کے لئے جن اشیائے ضروریہ کی طلب ہوتی ہے اس کے لئے کئی دوسرے شعبوں کے سپاہیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ سپاہی، میدانِ جنگ میں لڑنے والے ایک سپاہی کا اسلحہ، راشن، گولہ بارود، وردی، میڈیکل، ٹریننگ، سیکیورٹی، ٹرانسپورٹ،ڈیزل اور پٹرول وغیرہ کا اہتمام کرتے ہیں۔انہی چیزوں کے ارسال و ترسیل کو انصرام کا نام دیا جاتا ہے…… ایک لڑاکا سپاہی کو یونٹ سے اٹھا کر میدانِ جنگ میں اتارنے اور پھر وہاں اس کو Sustain کرنے کے لئے جن اشیاء کی ضرورت ہوتی ہے ان کو انصرامی امداد (Logistic Support) کا نام دیا جاتا ہے…… اب آتے ہیں آسٹریلیا اور انڈیاکے سات ”ورچوئل“ معاہدوں کی طرف جن میں کہا گیا ہے کہ طرفین اپنی اپنی ملٹری بیسز (Bases) تک رسائی (Access) دینے کے لئے ایک دوسرے کو انصرامی مدد فراہم کریں گے……
لیکن اس سے پہلے کہ آگے بڑھا جائے لفظ ”ورچوئل“ کی تشریح بھی ضروری معلوم ہوتی ہے۔…… انگریزی زبان میں یہ لفظ ایک نیا اضافہ ہے۔ چند ماہ پہلے تک اس کے لغوی معانی تھے: نہائی یا مجازی…… لیکن جب سے کورونا وائرس دنیا میں متعارف ہوا ہے انگریزی زبان کی ڈکشنری میں اس لفظ کا ایک نیا پہلو اور مفہوم بھی متعارف ہو گیا ہے۔ انگریزی چونکہ ایک بین الاقوامی زبان ہے اس لئے اس میں نئے الفاظ تو شائد اتنی کثرت سے وارد اور متعارف نہیں کئے جاتے لیکن پرانے الفاظ ہی کو نئے معانی کا جامہ اوڑھا دیا جاتا ہے…… یہی حال لفظ ورچوئل کا ہے!
لفظ ورچوئل (Virtual) اسم صفت ہے یعنی یہ کسی شے کی اچھائی، برائی یا اس کے وصف کے کسی پہلو کی تشریح کے لئے استعمال ہوتا تھا۔ لیکن اب یہ ایک ایسا لفظ (یا اصطلاح) قرار دیا جا رہا ہے جس کا وجود تو ہوتا ہے لیکن لازم نہیں کہ اس کو آپ مل سکیں، پا سکیں یا چھو سکیں۔ مثال کے طور پر آپ کا ایک آن لائن (Online) دوست ہے (وہ دشمن بھی ہو سکتا ہے، محبوب بھی یا کوئی رقیب بھی!)۔ اس دوست / دشمن/ رقیب کو آپ ورچوئل دوست / دشمن/ رقیب کہیں گے۔ اس کا وجود تو ہو گا لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہ آپ سے ملاقات بھی کر سکے۔ اگر یہ ملاقات ہو گی بھی تو بن بلائے نہیں ہو گی۔ اس ”مجازی دوست“ کو آپ کسی جگہ چائے پر مدعو کر سکتے ہیں لیکن وہ اگر امریکہ میں بیٹھا ہے اور آ پ پاکستان میں ہیں تو وہ مقامِ ملاقات پر آپ کو بیٹھا نظر تو آئے گا لیکن اپنا بل وہ خود دے رہا ہو گا۔ آپ اس کو دیکھ سکتے ہیں، ہاتھ نہیں لگا سکتے…… ہاتھ لگانے کے لئے وقت کا انتظار کرنا پڑے گا۔اس ایکسر سائز کو وڈیو لنک بھی کہا جاتا ہے۔
آج کل لاک ڈاؤن کا دور ہے۔ میں اگر لاہور کے ایک محلے میں مقیم ہوں اور آپ کسی دوسرے میں رہائش پذیر ہیں تو ہم ایک دوسرے کو ”آن لائن“ مل سکتے ہیں، بات چیت کر سکتے ہیں، سمارٹ موبائل پر وہ دوست آپ کا اور آپ اس کا چہرہ بھی دیکھ سکتے ہیں، ہونٹ ہلتے ہوئے بھی نظر آئیں گے لیکن نہ وہ آپ کے گھر آ سکے گا نہ آپ اس کے ہاں جا سکیں گے۔ ایسی ملاقات ”ورچوئل ملاقات“ کہلائے گی۔ایک فلمی گیت کا مکھڑا یاد آ رہا ہے:
ہم سے آیا نہ گیا ان سے بلایا نہ گیا
فاصلہ پیار کا دونوں سے مٹایا نہ گیا
آج کل طلباء و طالبات کے لئے کافی دنوں سے ورچوئل کلاس رومز میں ورچوئل ٹیچنگ ہو رہی ہے۔ طلباء اور طالبات پڑھ رہے ہیں، استاد پڑھا رہا ہے لیکن یہ اس وقت تک ہے جب دونوں کے درمیان انٹرنیٹ یا وائی فائی کا رابطہ ہے۔ اگر رابطہ کٹ جائے تو ”ورچوئل تدریس“ بھی کٹ جائے گی…… یعنی یہ ملاحظہ کیجئے کہ جدید کمیونی کیشن ٹیکنالوجی نے ہمیں ایک ایسا لفظ دے دیا ہے جس کے دو معانی ہیں اور دونوں اصلی ہیں۔ بھارتی وزیراعظم اور آسٹریلوی وزیراعظم کے مابین جو سات معاہدوں پر 4جون کو دستخط ہوئے ہیں وہ ورچوئل (حقیقی) ہیں حالانکہ دونوں ایک دوسرے سے ہزاروں میل دور بیٹھے ہیں۔ ان کا دست بدست تبادلہ فی الحال ممکن نہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں کورونا بھی ایک ہے۔ لیکن یہ دونوں لیڈر اب معاہدوں سے انکاری نہیں ہو سکتے۔ ان کی تفصیلات (شق وار) ایک دوسرے کو پہنچا دی گئی ہیں …… لیکن ان معاہدوں کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ اور اس کی مزید تفصیلات کیا ہیں، یہ سب کچھ اس کالم کی آخری قسط میں۔ (جاری ہے)