حکومت اپنے ارکان کی باتوں پر توجہ دے
قومی اسمبلی میں بجٹ پر بحث کے دوران تحریک انصاف کے رکن میجر(ر) طاہر صادق نے تین ہزار ارب روپے سے زائد کے بجٹ خسارے پر سوال اٹھا دیا۔اُن کا کہنا تھا کہ یہ خسارہ کیسے پورا کیا جائے گا؟ اس کے لئے نئے قرضے لئے جائیں گے یا ٹیکس لگائے جائیں گے۔وزیراعظم تبدیلی لانا چاہتے ہیں،لیکن غیر منتخب معاونین ِ خصوصی کا گروپ تبدیلی نہیں چاہتا۔جو الیکشن جیت کر نہیں آ سکے، وہ کیا کریں گے؟ وزیراعظم اگر حقیقی تبدیلی چاہتے ہیں تو غیر منتخب معاونین ِ خصوصی کو فارغ کریں اور قابل لوگوں کو عہدے دے کر ملک کو بہتر بنائیں۔بیورو کریسی میں کرپشن عروج پر ہے اس سال کے اندر اگر اس کرپشن کو کنٹرول کر لیا جائے تو بہتر ورنہ یہ کرپشن پی ٹی آئی حکومت کو بہا کر لے جائے گی اور اگلا الیکشن بھی نہیں جیت سکیں گے، چند گندی مچھلیوں کی وجہ سے پورا ایوان بدنام ہو رہا ہے۔تحریک انصاف کے ایک اور رکن نور عالم بھی اپنی ہی حکومت پر برس پڑے،انہوں نے کہا کہ وہ حکومت کو آئینہ دکھاتے ہیں،احساس پروگرام کے بدلے بجلی اور پٹرول سستا کر دیتے تاکہ غریب کو فائدہ پہنچتا، عوام کو بھکاری بنایا جا رہا ہے،جب میں نے مہنگائی کے خلاف بات کی تو میرے پیچھے بھی نیب کو بھیج دیا گیا، مہنگائی، لوڈشیڈنگ پر بات کرتا ہوں تو مجھ پر تنقید ہوتی ہے۔ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ(ن) اور پی ٹی آئی سمیت سب وزرائے خزانہ یہی کہتے آئے ہیں کہ پچھلے برباد کر گئے،میں صحیح کر رہا ہوں۔انہوں نے ادویات کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کی طرف بھی توجہ دلائی،بجٹ پر بحث کے دوران تحریک انصاف کے ارکان آپس میں الجھتے رہے،مسلم لیگ(ن) کے احسن اقبال نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے ایٹمی پروگرام کے بارے میں وزیراعظم کے بیان کو ہدفِ تنقید بنایا اور کہا کہ ایٹمی پروگرام پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ عمران خان کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ دنیا کو کہیں کہ ایٹمی پروگرام پر بات ہو سکتی ہے،انہوں نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں بیس فیصد اضافے کا مطالبہ کیا۔
میجر(ر) طاہر صادق نے سوال تو اہم اُٹھا دیا ہے کہ بجٹ میں جو خسارہ ظاہر کیا گیا ہے وہ قرضوں سے پورا ہو گا یا ٹیکس سے؟ہو سکتا ہے وزیر خزانہ بجٹ بحث سمیٹتے ہوئے اس سوال کا جواب بھی دے دیں،لیکن حکومت سے تعلق رکھنے والے رکن کا یہ کہنا کہ اگر یہی حالات رہے تو حکومت کے لئے مشکلات پیدا ہوں گی،بلکہ اگلے الیکشن میں کامیابی مشکوک ہو جائے گی لمحہ فکریہ ہے۔بہت سے ارکان جب وزیراعظم سے ملتے ہیں تو انہیں بھی ایسے ہی خدشات سے آگاہ کرتے ہیں، پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں بھی ایسی آوازیں اٹھتی رہتی ہیں،لیکن بعض وزراء خوش فہمیوں کے گرداب میں ایسے پھنسے ہوئے ہیں کہ نکلنے کے لئے تیار نہیں،اور غیر منتخب لوگ جو اہم مناصب پر براجمان ہیں، منتخب لوگوں کے برعکس ایسی خوشخبریاں بھی سناتے رہتے ہیں کہ اگلا الیکشن بھی تحریک انصاف جیتے گی۔وزیر اطلاعات فواد چودھری تو سندھ کے دورے کے دوران یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ صوبے میں بھی اگلی حکومت اُن کی پارٹی کی ہو گی۔یہ بات انہوں نے کوئی پہلی دفعہ نہیں کہی وہ جب بھی سندھ کے دورے پر جاتے ہیں کوئی نہ کوئی ایسی بات کہہ دیتے ہیں، شاید اس کا مقصد صوبے سے تعلق رکھنے والے اتحادیوں کو خوش رکھنا ہوتا ہے جو وقتاً فوقتاً سندھ کے حالات کے بارے میں عدم اطمینان کا اظہار کرتے رہتے ہیں وہ شاید جلدی میں ہیں کہ کسی نہ کسی طرح پیپلزپارٹی کو صوبے کے اقتدار سے الگ کر دیا جائے،اُن کی مایوسی بڑھتی ہے تو وہ سندھ حکمت کی ناکامیوں کا تذکرہ لے بیٹھے ہیں۔
تحریک انصاف کی صفوں میں جو اختلافات ہیں اور جس کے مظاہر سامنے آتے رہتے ہیں،بجٹ اجلاس میں بھی اس کا اظہار ہو رہا ہے،جہانگیر ترین کے گروپ نے تو کئی ہفتوں تک غیر یقینی کی کیفیت پیدا کئے رکھی۔اب اس معاملے پر پراسرار خاموشی ہے نہ کوئی شوگر مافیا کا تذکرہ کرتا ہے اور نہ ہی یہ اعلان کرتا ہے کہ اپنا ہو یا پرایا ہر ایک کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک ہو گا۔جہانگیر ترین گروپ نے تو بہرحال اپنی قوت ثابت کر دی اور جو حلقے صبح شام جہانگیر ترین کو اِدھر یا اُدھر ہو جانے کی تلقین کر رہے تھے وہ بھی خاموش ہو گئے ہیں، اب جو کچھ بھی ہونا ہے بجٹ کی منظوری کے بعد ہی ہونا ہے اس وقت تک پارٹی کے اندر مخالفین کو بھی برداشت کیا جائے گا اور اتحادیوں کو بھی۔اتحادی اگرچہ2023ء تک حکومت کے ساتھ رہنے کے اعلانات کر رہے ہیں، لیکن وہ حکومت مخالف سگنل بھی کسی نہ کسی انداز میں بھیجتے رہتے ہیں۔ان حالات میں حکومت کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی صفوں کے اندر سے اٹھنے والی اختلافی آوازوں پر دھیان دے۔ حکومت کا ہر چھوٹا بڑا دعویٰ کر رہا ہے کہ کرپشن کا خاتمہ اس کا ہدف اول ہے،لیکن حکومتی پارٹی کے اپنے ہی ارکان، قومی اسمبلی کے ایوان میں کہہ رہے ہیں کہ بیورو کریسی میں رشوت بہت بڑھ گئی ہے،اس میں کتنی حقیقت ہے، حکومت کو پتہ چلانا چاہئے۔ پچھلے دِنوں ایسے الزامات لگائے گئے تھے کہ ڈپٹی کمشنر جیسے اعلیٰ عہدوں پر بھی رشوت دے کر تقرر ہو رہے ہیں۔بظاہر یہ ناقابل ِ یقین ہے،لیکن طاہر صادق نے جس طرح بیورو کریسی میں کرپشن میں اضافے کی بات کی ہے اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ جو افسر رشوت دے کر کسی خاص پوسٹ پر متعین ہوتے ہیں وہ پھر اپنا نقصان پورا کرنے کے لئے رشوت کا بازار گرم کر دیتے ہیں۔کرپشن کے خاتمے کی دعویدار حکومت پر اس کے اپنے ہی ارکان اگر یہ الزام لگائیں تو پھر اس کی تحقیقات ضروری ہو جاتی ہے،اِس لئے اس جانب توجہ دی جانی چاہئے۔ اپوزیشن کا کوئی رکن ایسی بات کرتا تو شاید حکومت کے ارکان موقع پر ہی حساب برابر کر دیتے،اور وہ کیفیت دوبارہ پیدا ہو جاتی جو چند روز پہلے ہوئی تھی،حکومتی ارکان نے جو کچھ کہا اس کا کسی نے جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔