اثاثہ جات کیس میں خواجہ آصف کی ضمانت منظور، نیب عائد الزام کے ثبوت پیش نہیں کر رہا: لاہور ہائیکورٹ
لاہور(نامہ نگارخصوصی)لاہور ہائی کورٹ کی جسٹس عالیہ نیلم اور جسٹس سیدشہباز علی رضوی پرمشتمل ڈویژن بنچ نے آمدنی سے زائد اثاثہ جات کیس میں گرفتار پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنماخواجہ آصف کی درخواست ضمانت منظور کرلی،فاضل بنچ نے قرار دیا بادی النظر میں نیب جو الزام لگا رہا ہے اس کے ثبوت پیش نہیں کررہا،دوران سماعت نیب کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا خواجہ آصف نے بیرون ملک کمپنی سے 9 ہزار درہم ملے،خواجہ آصف بینک اکاؤنٹ سے اقامے کی تنخواہ لیتے تھے یا کیش میں یہ ذرائع نہیں بتائے مگر بیرون ملک کمپنی کو خواجہ آصف کی تفصیلات سے متعلق لکھا تو کمپنی نے نیب کو جواب دیا وہ جوڈ یشل فورم پر جواب دیں گے،عدالت کے استفسارپرنیب کے وکیل نے بتایا تحقیقات ریفرنس کی صورت میں مکمل کرلی ہیں،عدالت نے قرار دیا آپکی دستاو یز ا ت میں فرق ہے جو ظاہر کرتے ہیں نیب کے افسر کام نہیں کرتے،کیا نیب کا کام یہی ہے کہ وہ صرف دفاتر میں بیٹھے رہیں اور ملزم خود آکر دستاویزات دے اور نیب اس پر فیصلہ کر دے؟ نیب خود تو وضاحت نہیں دیتا مگر لوگوں سے پوچھتا ہے وضاحت دو،آپ اپنے جواب میں کچھ چیزوں کو ختم نہیں کرسکتے، آپکو بتا نا ہوگا خواجہ آصف نے کتنی کتنی رقم اکاؤنٹس میں جمع کروائی؟فاضل بنچ نے نیب کے وکیل استفسار کیا کہ آپ نے دو رپورٹس پیش کیں اور دونوں میں فرق ہے، آپ نے مختلف رپورٹس میں وقت اور دورانیہ کیوں تبدیل کیا،نیب کے وکیل نے کہا ایسا نہیں،پہلی رپورٹ میں کل رقم 23 کروڑ اور دوسری رپورٹ میں کم ہو کر 15 کروڑ رہ گئی، نیب کی اگر بدنیتی ہوتی تو رقم بڑھائی جاتی مگر یہاں کم ہوئی جو نیک نیتی کا ثبوت ہے،جس فاضل بنچ نے پوچھا نیب جو کہہ رہا ہے وہ باد ی النظر میں ثابت نہیں ہو رہا،نیب کے پراسیکیوٹر نے دلائل دیتے ہوئے کہا خواجہ آصف نے ابھی تک نہیں بتایا اقامہ سے اور ذاتی کاروبار سے کتنے کتنے پیسے کمائے، خواجہ آصف کا ابو ظہبی اور پا کستا ن میں الگ الگ اکاؤنٹ تھا،وہ ابو ظہبی سے اپنے اکاؤنٹ سے پاکستان میں موجود اپنے اکاؤنٹ میں رقم بھیجتے رہے، خواجہ آصف نے ابو ظہبی کے اپنے ذرائع کا ثبوت ابھی تک فراہم نہیں کیا، خواجہ آصف نے پبلک آفس ہولڈ کرتے ہوئے اختیار ا ت کا ناجائز استعمال کیا، ہمارا کیس ہے خواجہ آصف کے اثاثے انکی آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے، جسٹس عالیہ نیلم نے کہا آپ کے 2 جوابات میں مختلف موقف سامنے آیا ہے دونوں جواب پڑھیں، نیب کے پراسیکیوٹر نے کہا ایک جواب میں 2016 ء اور دوسرے جواب میں 2018ء کا ذکرکیاگیا ہے، عدالت نے کہا آپ کو بتانا ہو گا خواجہ آصف نے کتنی کتنی رقم اکاؤنٹس میں جمع کروائی، جسٹس عالیہ نیلم نے کہا کیا آپ نے تفتیشی سے پوچھا کہ کیااس نے تحریری جواب میں وقت تبدیل کرنے کا ذکر کیا؟ نیب نے اپنا موقف خود تبدیل کر لیا ہے، پراسیکیوٹر نے کہا ایسا نہیں،عدالت نے نیب پراسیکیوٹر سے پوچھاخواجہ آصف کی بطور رکن اسمبلی تنخواہ کے علاوہ کونسی تنخواہ شامل ہے؟ نیب کے پراسیکیوٹر نے کہاخواجہ آصف سیالکوٹ ڈیریزسے 1987ء میں 39 ہزار تنخواہ ماہانہ لیتے تھے، جسٹس شہبازعلی رضوی نے ریمارکس دیئے عدالت میں پیش کئی گئی نیب رپورٹ میں ریکارڈ کا ذریعہ نہیں بتایا جا رہا، جسٹس عالیہ نیلم نے کہا چلیں آگے چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ تفتیشی افسر آپ کو کتنی اچھی معلومات دیتے ہیں، تحریری جواب میں آپ کہہ رہے ہیں کہ تحقیقات جاری ہیں اور تفتیشی آ کر کہتا ہے عدالت سے وقت لیا جائے کہ ریفرنس منظوری کیلئے بھیجا ہوا ہے، یہ کیا ہے؟ نیب کے تفتیشی کیا کر رہے ہیں؟ نیب غیر جانبدار رہے، نیب پراسیکیوٹر نے کہا خواجہ آصف نے مقامی کاروبار سے 50 اعشاریہ 59 ملین روپے کی انکم ظاہر کی ہے، خواجہ آصف کی انکم اور اخراجات میں 159 ملین کا فرق ہے، خواجہ آصف نے اقامہ اور ذاتی کاروبار سے 144 ملین کی رقم ظاہر کی، 9 ہزار درہم خواجہ آصف لیا کرتے تھے، خواجہ آصف کا 2014ء اقامہ معاہدہ کے تحت 8 گھنٹے نوکری کرنے کی شرط مو جود ہے، خواجہ آصف کے وکیل نے کہا ان کے موکل نے 87 ملین روپے تنخواہ وصول کی، 46 ملین روپے اقامہ کی تنخواہ سے اخراجات ہوئے، خواجہ آصف نے 41 ملین روپے اقامہ کی تنخواہ سے پاکستان بھجوائے، خواجہ آصف نے زین ریسٹورنٹ کی 57 ملین کی انکم حاصل کی، نیب پراسیکیوٹر نے خواجہ آصف کے وکیل سے کہا ہمیں بھی بتا دیں کہاں سے یہ رقم بتا رہے ہیں، جس پر جسٹس عالیہ نیلم نے کہا تھوڑی سی آنکھیں کھول لیجئے، یہ سارا کچھ اقامہ پر لکھا ہوا ہے، نیب کو جو ریکارڈ فائدہ دے رہا وہ تو نیب نے ریکارڈ کر لیا، جو ریکارڈ خواجہ آصف کو فائدہ دے رہا ہے تو نیب اس کو ریکارڈ نہیں کر رہا، نیب پراسیکیوٹر نے کہا ابوظہبی کی کمپنی نے خواجہ آصف کی بتائی گئی رقم کی تصدیق نہیں کی، جس پر خواجہ آصف کے وکیل نے کہا ابوظہبی کمپنی کا موقف ہے جب عدالت میں بلایا جائیگا پیش ہو ں گے، متحدہ ارب امارات اسوقت تک اقامہ جاری نہیں کرتا جب تک کمپنی نہ ہو، جسٹس سیدشہباز علی رضوی نے استفسارکیا کیا اقامہ پر تنخواہ درج ہوتی ہے؟ جس پر خواجہ آصف کے وکیل نے اقامہ عدالت میں پیش کردیا،جسٹس عالیہ نیلم نے کہا نیب اقامہ تو مانتا ہے مگر اسکی شرائط کو نہیں مانتا، نیب پراسیکیوٹر نے کہا نیب تو اقامہ کو مانتا ہی نہیں، کمپنی نے اقامہ کی تصدیق ہی نہیں کی، جسٹس شہباز علی رضوی نے کہا عدالت نے اقامہ تسلیم کر رکھا ہے، سرٹیفکیٹ موجود ہے، نیب کے پراسیکیوٹر سید فیصل رضا بخاری نے کیس کا پس منظر بیان کرتے ہوئے کہا عثمان ڈار کی شکایت پر انکوائری شروع ہوئی،30 جون 2020ء کو انکوائری لا ہو ر منتقل کی گئی، 29 دسمبر 2020ء کو خواجہ آصف کو گرفتار کیا گیا، 22 جنوری 2021ء کو خواجہ آصف کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل منتقل کیا گیا، 1993ء کو خواجہ آصف ایم این اے بنے اور 5 اعشاریہ ایک ملین کے اثاثے ظاہر کئے، 1993ء سے 2018ء تک ہر جنرل الیکشن میں خواجہ آصف ایم این اے منتخب ہو تے رہے، خواجہ آصف 2008ء میں وفاقی وزیر پیٹرولیم رہے، خواجہ آصف 2013ء سے 2017ء وفاقی وزیر پیٹرولیم اور امور خارجہ رہے،فاضل بنچ نے فریقین کاموقف سننے کے بعد درخواست ضمانت منظور کرلی۔
خواجہ آصف ضمانتص