سندھ اسمبلی، صوبائی بجٹ پر عام بحث کا سلسلہ پانچویں روز بھی جاری رہا 

  سندھ اسمبلی، صوبائی بجٹ پر عام بحث کا سلسلہ پانچویں روز بھی جاری رہا 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 
 کراچی(اسٹاف رپورٹر)سندھ اسمبلی میں آئندہ مالی سال کے صوبائی بجٹ پر عام بحث کا سلسلہ بدھ کو پانچویں روز بھی جاری رہا۔ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر کنور نوید جمیل بجٹ پراظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پورے لاہور سے زیادہ ٹیکس صرف کراچی کا لیاقت آباد دیتا ہے مگرسندھ کا بجٹ آیا تو لیاقت آباد کے لئے ایک روپے کی اسکیم نہیں رکھی گئی اورکراچی کی جاری اسکیموں کو بھی نکال دیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ کورنگی، حیدرآباد اور میرپورخاص کی میڈیکل کالج دس سال بعد بھی نہ بن سکے،حیدرآباد کالج کی یونیورسٹی بنانے کے لئے تاحال ایک روپیہ خرچ نہیں ہوا،حیدرآباد کی یونیورسٹی کے لئے کہاجاتا ہے کہ یہ میری لاش پر بنے گی۔انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت سے یونیورسٹی منظور کرائی جس کے بعد وزیر اعلی  سندھ سے زمین مانگی گئی مگرموجودہ سندھ حکومت حیدرآباد یونیورسٹی کے لئے زمین دینے کو تیار نہیں ہے۔کنور نوید جمیل نے کہا کہ کراچی سے سندھ حکومت سالانہ چار سو ارب روپے ٹیکس کی شکل میں سے جمع کرتی ہے جبکہ سندھ کے افسران اس شہر سے اتنی ہی رقم رشوت کی مد میں وصول کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت نے طے کرلیا ہے شہری علاقے لوگ ٹیکس کتنا بھی دے دیں سرکاری اداروں میں تعلیم حاصل نہیں کرسکیں گے۔انہوں نے کہا کہ کراچی اور حیدرآباد کو ایک کالونی کی طرح ڈیل کیا جا رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ کراچی کے لوگوں کو پانی نہیں ملتا،واٹر سپلائی کا کوئی پائپ ٹوٹ جائے تو چندہ جمع کرکے پیسے لئے جاتے ہیں۔ کنور نوید جمیل نے کہا کہ حکومت سندھ یا تو شہری علاقوں سے ٹیکس لینا بند کردے تاکہ لوگ انہی پیسوں سے وہ اپنے مسائل حل کرلیں،آج بیس سال پرانی اسکیم کے فور کے لئے فنڈز وفاقی حکومت دی رہی ہے،اٹھارہویں ترمیم سے پہلے بھی یہ ذمہ داری صوبائی تھی۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ تیرہ سالوں میں کراچی دنیا کے دس بدترین شہروں میں شامل ہوگیا۔اس کے باوجود کراچی کے لئے ایک روپیہ بھی نہیں ہے۔کراچی کے لئے ہر سال بجٹ میں پیسے بھی رکھے جاتے ہیں لیکن کام نہیں ہوتے۔کنور نوید جمیل نے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان نے سندھ کا بجٹ مسترد کردیا۔انہوں نے کہا کہ حیدرآباد اور کراچی کے لوگوں کو تنگ نہ کریں پھر ہم یہ کہنے پر مجبور نہ ہوں یہ اسمبلی ہماری نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ کراچی کے لئے اسکیمیں محض نمائشی ہیں تاکہ وزیر اعلی اپنی تقریر میں حوالہ دے سکیں۔انہوں نے کہا کہ کراچی میں نہ حکمران یہاں کے نہ افسران یہاں کے ہم اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔اس موقع پر: وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے پوائنٹ آف آرڈر پر کہا کہ جو باتیں یہاں کہی گئی ہیں ان کا جواب بھی سنا جائے۔مراد علی شاہ نے کہا کہ ہمارا ان کے ساتھ پرانا تعلق رہا ہے،ایم کیوایم کے دوست 2014تک ہمارے ساتھ تھے جب وزیر صاحبان جواب دیں تو تحمل سے بیٹھ کران کی بات بھی سنیں۔وزیر اعلی نے کہا کہ جو باتیں آپ نے کہی ا س کا جواب دے دوں گا۔میری درخواست ہے اجلاس میں شریک ہوں تاہم وزیر اعلی کی اس درخواست کو نظر انداز کرتے ہوئے ایم کیوایم پاکستان کے ارکان نے ایوان میں احتجاج شروع کردیااور انہوں نے "ہم نہیں مانتے ظلم کے ضابطے,کراچی کو پانی دو کے نعرے"لگانا شروع کردیئے جس پر اسپیکر نے اجلاس دس منٹ کے لئے ملتوی کردیا۔وقفے کے بعد جب اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو پیپلز پارٹی کے ساجد جوکھیوکو اظہار خیال کا موقع دیا گیا انہوں نے اپنی تقریر میں ایم کیو ایم پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس جماعت نے کراچی واٹر بورڈ میں دس ہزار دہشت گرد بھرتی کئے یہ آج بھی بانی ایم کیوایم کے اشاروں پر چلتے ہیں،یہ ان تین حصوں میں بٹے ہوئے ہیں،بہت جلد آٹھ ٹکڑوں میں بٹ جائیں گے۔ ساجد جوکھیونے کہا کہ ایم کیو ایم 40 سال تک حکومت میں رہی مگر اس نے کراچی کی کوئی خدمت نہیں کی بلکہ اردو بولنے والوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔ان کا کہنا تھا کہ کراچی دس سال پیچھے ہے تو اس کو پیچھے کرنیوالی خود متحدہ ہے۔انہوں نے کہا کہ کراچی یونیورسٹی بہترین اداروں میں شامل تھی مگر وہاں اپنے لوگوں کو خود نہیں چھوڑتے تھے۔کراچی 70 فیصد ریونیو دیتا ہے تو یہ سندھ کا دارالحکومت ہے۔کراچی ہمارا ہے تمام زبانیں بولنے والوں کا شہر ہے۔رود بولنے والے آج پیپلز پارٹی میں شامل ہو رہے ہیں کیونکہ پیپلز پارٹی نے اس شہر میں امن قائم کیا ہے۔ایوان کی کارروائی کے دوران باہر چلے جانے والے ایم کیو ایم ارکان کچھ دیر بعد واپس لوٹ آئے اور انہوں نے پھر سے احتجاج شروع کردیا۔ایم کیو ایم کے ارکان نے اسپیکر کی نشست کے سامنے احتجاجی دھرنا بھی دیا۔تحریک انصاف کے رکن فردوس شمیم نقوی نے بجٹ سیشن کے موقع پر منفرد انداز اپنا یا وہ ایوان میں شیروانی اور ترکی ٹوپی پہن کر آئے تھے۔اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ سندھ میں تعلیم کا شعبہ سندھ میں زبوں حالی کا شکار ہے، صوبے میں نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات سب سے زیادہ ہے،سندھ کی سالانہ ترقی چار فیصد رہ گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ کرپشن کا نظام ہے جسکی وجہ سے ہرطرف تباہی ہے،کراچی کیساتھ ظلم ہورہاہے۔وزیراعلی کہتے ہیں کہ کراچی کے لئے یک سو نو ارب روپے کی اسکیمز ہیں مگران کتابوں میں کراچی کی اسکیمز نظر نہیں آرہی۔ فردوس شمیم نقوی نے کہا کہ سندھ میں کوئی ریسکیو سروس نہیں ہے۔حکومت سندھ 2007 سے صوبائی فنانس کمیشن ایوارڈ نہیں دے رہی،سندھ حکومت اب تک گاربیج ٹرانسفر اسٹیشنز نہیں بناسکی،کراچی کی آبادی میں پرائمری ہیلتھ کیئر یونٹس اور گورننس کا فقدان ہے۔

مزید :

صفحہ اول -