سیاحت کی ترقی کے ثمرات
حالیہ عرصے میں دنیا میں جن شعبہ جات نے بہت تیز رفتاری سے ترقی کی ہے ان میں سیاحت بھی شامل ہے اور اکثر ممالک کی معیشتوں کا بڑی حد تک دارومدار ہی سیاحت پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں سیاحوں کو راغب کرنے کے لیے حکومتی سطح پر مختلف سازگار پالیسیاں ترتیب دی جاتی ہیں کیونکہ سیاحت کا براہ راست تعلق مقامی علاقوں کی معاشی ترقی اور روزگار سے جڑا ہوا ہے۔پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو قدرت نے ہمارے ملک کو بے شمار قدرتی وسائل اور فطری حسن سے نوازا ہے ۔بلند و بالاپہاڑ ،دریا ،جھیلیں،باغات ،خوبصورت میدان ،ریگستان ،سبزہ زار ،چاروں موسم اور سب سے بڑھ کر پاکستان کی متنوع ثقافت ،یہ وہ تمام عوامل ہیں جنہیں کسی بھی ملک میں سیاحت کے فروغ کی کلید قرار دیا جا سکتا ہے۔تاہم اس جانب اتنی توجہ نہیں دی گئی ہے جس کی وجہ سے سیاحت کے شعبے سے زیادہ فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا ہے۔یہ امر خوش آئند ہے کہ موجودہ حکومت کی جانب سے سیاحت کے فروغ کا بھرپور وژن ظاہر کیا گیا ہے اور انسداد وبا کی بہتر صورتحال سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ سیاحت کی ترقی کےلیے عملی اقدامات کیے جائیں گے۔
پاکستان سے اب رخ کرتے ہیں چین کے علاقے تبت کا جہاں گزشتہ ایک ہفتے سے موجودگی کے دوران سیاحت کی ترقی کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کا بغور مشاہدہ کیا اور سوچا کہ اہم پہلووں کو تحریری صورت میں اجاگر کیا جائے۔پہلی بات تو یہ ہے کہ تبت کا شمار دنیا کے ایسے علاقوں میں کیا جاتا ہے جنہیں موسمیاتی اعتبار سے سخت یا شدید سمجھا جاتا ہے۔اور یہ بات حقیقت بھی ہے کہ سطح سمندر سے چار پانچ ہزار میٹر کی بلندی پر آکسیجن کی کمی یا موسم میں رونما ہونے والی اچانک تبدیلی مسائل کا سبب ہو سکتی ہے ،مگر اس سب کے باوجود ایسا کیا ہے کہ لوگ تبت کی جانب کچھے چلے آتے ہیں۔اگر اعداد و شمار کی روشنی میں دیکھا جائے تو حیران کن حقائق ہمارے سامنے آتے ہیں۔ تبت میں آنے والے سیاحوں کی سالانہ تعداد چار کروڑ سے زائد رہتی ہے اور ایک ایسے وقت میں جب دنیا میں وبائی صورتحال شدید تھی اُس وقت یعنیٰ سال 2020میں بھی35 ملین سے زائد سیاحوں نے تبت کا دورہ کیا جو ایک غیر معمولی امر ہے۔تبت میں سیاحت کی ترقی سے حاصل شدہ ثمرات کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ 2020 تک یہاں دیہی سیاحت نے براہ راست یا بالواسطہ مقامی کسانوں اور گلہ بانوں کے لئے 86،000 ملازمتیں پیدا کی ہیں ، جس کے نتیجے میں سالانہ فی کس آمدنی میں 4،300 یوان کا اضافہ ہوا ہے۔
سیاحت کے اعتبار سے تبت کو مختلف درجوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔یہاں موجود قدیم ثقافتی ورثہ دیکھنے لوگ دنیا بھر سے آتے ہیں۔صدر مقام لہاسا میں موجود قدیم پوٹالا محل کو تبت کی نشانی قرار دیا جاتا ہے ۔اس قدیم محل کی تاریخ تیرہ سو سال ہے اور بتایا جاتا ہے کہ 631عیسوی میں پہلی مرتبہ یہاں ایک محل تعمیر کیا گیا جسے بعد میں مزید توسیع حاصل ہوتی گئی۔اس قدیم ثقافتی ورثہ کو تبتی بدھ مت کے آغاز کی علامت تصور کیا جاتا ہے۔ پوٹالا محل دنیا کا بلند ترین قدیم محل بھی ہے۔ یہ سطح سمندر سے3750 میٹر کی بلندی پر واقع ہے ۔ہر سال لاکھوں سیاح اس عظیم محل کو دیکھنے آتے ہیں اور ہمیں بتایا گیا کہ عام دنوں میں یومیہ دو ہزار جبکہ تعطیلات کے دوران یومیہ پانچ ہزار سے زائد سیاح پوٹالا محل آتے ہیں جس سے سیاحت کی مد میں زبردست آمدنی حاصل ہوتی ہے۔اسی طرح دیگر کئی تاریخی مقامات بھی موجود ہیں جہاں سیاحوں کی بڑی تعداد رخ کرتی ہے۔
تبت میں مذہبی سیاحت کو بھی نمایاں مقام حاصل ہے۔بدھ مت کے پیروکار دنیا بھر سے یہاں آتے ہیں جس سے مقامی لوگوں کے معاش کا بھی انتظام ہو جاتا ہے۔یہاں اسلامی ثقافت کی بھی عمدہ مثالیں موجود ہیں ۔لہاسا کی عظیم مسجد کی تاریخ ایک ہزار سال قدیم ہے۔ مسلمان تاجر یا دیگر مسلم سیاح جب تبت آتے ہیں تو یہاں موجود مساجد بھی ضرور جاتے ہیں۔
اسی طرح تبت کے فطری حسن سے مالا مال مناظر بالخصوص جھیلیں ،آبشاریں ،گرم چشمے اور چراگاہیں بھی سیاحوں کی دلچسپی کا سامان لیے ہوئے ہیں۔ تبت کے دلکش مناظر میں سیاح کھو جاتے ہیں اور اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ یہاں زیادہ سے زیادہ وقت گزارا جائے۔سیاحوں کی توجہ کا ایک اور اہم نقطہ تبت کی شاندار ثقافت بھی ہے۔تبت کے لوگ اپنی قدیم روایات ،لباس ، غذا ،تہوار اور رہائش کے انداز کو برقرار رکھے ہوئے جبکہ اکثر نئے اور جدید ثقافتی رواج کا بھی حصہ بن چکے ہیں۔تبت میں سال بھر مختلف روایتی میلے منائے جاتے ہیں جن میں دنیا بھر سے سیاح شریک ہوتے ہیں۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو تبت میں سیاحوں کے لیے بہترین بنیادی ڈھانچہ موجود ہے ،سٹرکیں ، ریلوے ،فضائی زرائع دستیاب ہیں۔سیاحوں کے لیے قیام و طعام کی بہترین سہولیات دستیاب ہیں۔تبت کے لوگ بھی مہمان نواز اور خوش اخلاق ہیں جس سے سیاحوں کی بھی حوصلہ افزائی ہوتی ہے کہ وہ تبت آئیں اور یہاں دلفریب مناظر سے لطف اٹھائیں۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں.