لارڈ ڈلہوزی کے زمانے میں تجارت میں بھی بڑی ترقی ہوئی،ریلوں، سڑکوں اور نہروں کے راستے مال کا لانا لے جانا آسان ہو گیا
مصنف : ای مارسڈن
لارڈ ڈلہوزی (تتمہ)۔۔۔۔۔انگریز عملداری کے فائدے
1853ءمیں اول ہی اول ریل کا 20 میل کا ٹکڑا تیار ہوا اب اس ملک میں 36 ہزار میل سے زیادہ ریل کی لمبائی ہے۔ قریب قریب سب بڑے بڑے شہر اور بندر گاہیں ریل سے ملی ہوئی ہیں اور ہر سال 45 کروڑ سے زیادہ مسافر ریل میں سفر کرتے ہیں۔ ریل کے ذریع سے مال بھی آسانی سے تمام ملک میں ایک جگہ سے دوسری جگہ آتا ہے۔ اگر کہیں قحط پڑتا ہے تو دوسرے ملکوں کا غلہ وہاں پہنچ جاتا ہے اور بیشمار جانیں بچ جاتی ہیں۔ ریل کے سبب سے فوج کے خرچ میں بھی بڑی کفایت ہے کیونکہ ہند کے ہر حصے میں بڑی بڑی فوجیں رکھنے کے بجائے صحت بخش مقاموں میں چھاﺅنیاں بنا دی گئی ہیں اور جہاں کہیں ضرورت ہوتی ہے۔ ریل میں بیٹھ کر فوج پہنچ جاتی ہے۔
لارڈ ڈلہوزی کے زمانے میں تجارت میں بھی بڑی ترقی ہوئی۔ روئی اور غلے کی خریدوفروخت پہلے سے سہ چند ہو گئی۔ کسانوں کو پیداوار کی بہت زیادہ قیمت وصول ہونے لگی اور وہ پیشتر کی بہ نسبت مالدار بن گئے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ ریلوں، سڑکوں اور نہروں کے راستے مال کا ایک جگہ سے دوسری جگہ لانا لے جانا آسان ہو گیا تھا۔ انگلستان کے سوداگر بہت سی قسم کی چیزیں اس ملک میں لانے لگے جو چیزیں پیشتر ہند کے بہت سے حصوں میں دیکھنے کو بھی میسر نہ تھیں۔ گاﺅں گاﺅں میں بسہولت ملنے لگیں۔
سڑکیں، نہریں اور پل بنانے اور مرمت کرنے کی غرض سے لارڈ ڈلہوزی نے صیغہ تعمیرات جاری کیا۔ اس کے وقت میں 2 ہزار میل سے زیادہ عمدہ سڑک تیار ہوئی اور اس پر پل بنائے گئے۔ نہر گنگ جو دنیا کی نہروں میں سب سے بڑی ہے۔ اسی کے زمانے میں کھلی تھی۔ اسکے علاوہ اور بھی کئی نہریں جاری ہوئیں۔ ملک کے بڑے بڑے علاقے جو بنجر پڑے تھے اور جن میں کسی قسم کی پیداوار نہ ہوتی تھی۔ نہروں کے پانی کی بدولت سرسبز و شاداب ہو رہے ہیں۔ نہریں کیا ہیں چاندی کے دریا ہیں جو 18 ہزار میل سے زیادہ کی لمبائی میں بہتے ہیں۔
لارڈ ڈلہوزی کے زمانے سے پہلے شاید ہی کوئی خط لکھتا تھا، ڈاک کا محصول بڑا گراں تھا۔ ریل کا نام ہی نہ تھا۔ معمولی سڑکیں بھی بہت کم تھیں۔ ہر کارے چٹھیاں لے جاتے تھے اور بہت آہستہ آہستہ چلتے تھے۔ چٹھیوں پر ٹکٹ نہ ہوتے تھے۔ دور کی چٹھیوں کا محصول بہت زیادہ دینا پڑتا تھا۔ آج ایک آنہ کے ٹکٹ میں چٹھی ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک 2 ہزار میل کے فاصلے پر پہنچ جاتی ہے۔ اگر تمام ہند ایک زبردست بادشاہ کی حکومت میں نہ ہوتا تو ڈاک کا انتظام ممکن نہ تھا۔ اب ڈاک کا انتظام 1 لاکھ 60ہزار میل میں پھیلا ہوا ہے اور 40 کروڑ خط ہر سال اسی کے ذریعے سے تقسیم ہوتے ہیں۔
ایک آنے کے ٹکٹ سے بھی زیادہ تعجب خیز اور حیرت انگیز تار برقی ہے۔ کچھ آنے کے خرچ کرنے سے چٹکی بجاتے بجاتے تار کی خبر ہزاروں کوس جاتی ہے۔ تار بھی اول اول لارڈ ڈلہوزی کے زمانے میں لگا تھا۔
لارڈ بنٹنگ نے انگریزی پڑھانے کے مدرسے جاری کیے۔ لارڈ ڈلہوزی نے سر رشتہ تعلیم قائم کیا۔ اب تمام ملک میں ہزاروں مدرسے کھل گئے۔ مقامی زبانیں سکھائی جانے لگیں اور ہر خاص و عام کے لیے تعلیم کا فیض جاری ہو گیا۔ اس کے وقت میں اس ملک میں 25ہزار مدرسے تھے۔ بڑھتے بڑھتے مدرسوں کی تعداد اب 1 لاکھ 70ہزار کے قریب پہنچ گئی ہے جن میں 8 لاکھ طالب علم تعلیم پاتے ہیں۔
1853ءتک سول سروس کے افسروں کا تقرر ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھ میں تھا کمپنی کے کارکن زیادہ تر اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو مقرر کر کے ہند میں بھیج دیتے تھے۔ ہند کے باشندے سول سروس میں نہیں آ سکتے تھے لیکن اس سال سول سروس سرکار انگریز کی رعایا کے لیے خواہ مقامی ہوں یا ولایتی عام کر دی گئی۔ انگلینڈ میں سول سروس کا امتحان ہوا اور جو سب سے اعلےٰ درجہ پر پاس ہوئے ان کو بلا لحاظ قومیت و ملت عہدے دیئے گئے۔ اب ہند کی سول سروس میں برہمن، راجپوت، مسلمان اور پارسیوں کے علاوہ شودر بھی بھرتی ہیں۔(جاری ہے )
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )۔