عزم استحکام آپریشن، سلامتی کمیٹی کا ان کیمرہ اجلاس بلانے کا اعلان 

        عزم استحکام آپریشن، سلامتی کمیٹی کا ان کیمرہ اجلاس بلانے کا اعلان 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

                                                                         اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک، نیوز ایجنسیاں)  حکومت نے عزم استحکام آپریشن کے سلسلے میں ایوان میں قومی سلامتی کمیٹی کا ان کیمرا اجلاس بلانے کا اعلان کر دیا، وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارر نے قومی اسمبلی میں پالیسی بیان دیتے ہوئے  قومی سلامتی کمیٹی کا ایوان میں ان کیمرہ اجلاس بلانے کا اعلان کیا، اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ عزم استحکام آپریشن کیسے کیا جائے گا؟ اس پر بحث کریں گے، آپ کے وزیراعظم کی طرح ناراض ہوکر ہمارا وزیراعظم باہر نہیں بیٹھے گا بلکہ پوری کابینہ کے ساتھ یہاں موجود ہوگا  وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھاکہ عزم استحکام آپریشن سے متعلق وزیردفاع بات کرنا چاہتے تھے لیکن اپوزیشن نے بات نہیں کرنے دی۔انہوں نے کہا کہ عزم استحکام آپریشن کیسے کیا جائے گا؟ اس پر بحث کریں گے اور ہم یہاں (ایوان) میں قومی سلامتی کمیٹی کو بلائیں گے، وزیراعظم بھی اجلاس میں بیٹھیں گے۔اپوزیشن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہمارے لیے سب سے پہلے پاکستان ہے، کچھ ایشوز بے ضرر ہوتے ہیں، اس سے آپ کی اور ہماری سیاست کو نقصان نہیں، عزم استحکام پر وزیر دفاع بات کررہے تھے، لیکن آپ نے ایک لفظ نہیں سنا۔انہوں نے کہا کہ اپوزیشن مشاورت نہ کرنے کا الزام لگاتی ہے لیکن ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ نے کوئی بات نہیں کی، وزیردفاع کی تقریر کا ایک لفظ اپوزیشن نے نہیں سنا، کیسے مشاورت کریں؟۔اس سے قبل قومی اسمبلی نے سوات واقعے کے تناظر میں اقلیتوں کے تحفظ کی قرارداد کثرت رائے سے منظور کر لی۔ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی غلام مصطفیٰ شاہ کی زیر صدارت ہونیوالے بجٹ سیشن کے دوران وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ سوات واقعے نے پوری قوم کا سر شرم سے جھکا دیا، پاکستان کسی ایک شخص کا نہیں بلکہ یہاں رہنے والے سارے پاکستانی برابر کے شہری ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ یہاں رہنے والے ہندو، عیسائی اور سکھ بھی برابر کے پاکستانی ہیں۔بعدازاں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی جانب سے سوات معاملے اور اقلیتوں سے متعلق قرارداد پیش کی گئی جسے ایوان نے کثرتِ رائے سے منظور کر لیا۔قراردار کے متن میں کہا گیا کہ وفاقی و صوبائی حکومتیں اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں، اقلیتوں کو مکمل تحفظ دیا جائے، اقلیتوں کے خلاف واقعات میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی جائے۔اپوزیشن نے قرارداد کے مندرجات پر احتجاج کیا تو وزیر قانون نے کہا کہ اپوزیشن ہر معاملہ کو اپنے لیڈر کی رہائی کے ساتھ مشروط نہ کرے، آپ اگر اپنے قائد کی رہائی اس میں شامل کرنا چاہتے ہیں تو ایسا نہیں ہوسکتا، اقلیتوں کا تحفظ حکومت کی ترجیح ہے، جو واقعات ہوئے ہیں اس کی تحقیقات ہونی چاہئیں، ہر بات پر میں نہ مانوں سیاسی اصول نہیں۔اس موقع پر پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر نے کہا کہ کچھ ویب سائٹ روزانہ توہین رسالت کر رہی ہیں، یہ معاملہ وفاق خود دیکھے، ہمیں اقلیتوں سے کوئی مسئلہ نہیں، مگر ہم اداروں کی طرف سے کسی شخص یا گروہ کی سرعام سزا کے بھی خلاف ہیں، کوئی ادارہ بھی غیر قانونی سزا نہ دے۔واضح رہے کہ 20 جون کو مدین میں لوگوں نے قرآن کی بے حرمتی کے الزام میں ایک شخص کو تشدد کا نشانہ بنا کر اسے جلا ڈالا تھا۔اس سے قبل  قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن رہنماؤں نے وزیر دفاع خواجہ آصف کی تقریر کے دوران شور شرابہ کرتے ہوئے ’فاٹا آپریشن بند کرو‘ کے نعرے لگا دیئے اجلاس میں اپوزیشن ارکان نے سپیکر ڈائس کا گھیراؤ کیا جس میں جے یو آئی کے ارکان بھی شریک تھے، رہنماؤں نے ہمیں امن چاہیے کہ نعرے بھی لگائے۔وزیر دفاع خواجہ آصف نے شور شرابے کے درمیان اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اقلیتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے حملے ہمارے لئے باعث شرمندگی ہیں، اس پر سب کا اتفاق رائے ہونا چاہیے۔اپوزیشن کے شور شرابے کے باعث خواجہ آصف نے اپنی تقریر روک دی، ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی سید غلام مصطفی شاہ نے کہا خواجہ صاحب آپ اپنی تقریر جاری رکھیں، خواجہ صاحب! آپ بات کریں آپ کا مائیک کھلا ہے۔خواجہ آصف نے کہا کہ یہ تو بلیک میلنگ ہو رہی ہے، یہ ہمیں گالیاں نکال رہے ہیں، ابھی کل والی گالی کا مسئلہ حل نہیں ہوا یہ مزید گالیاں دے رہے ہیں، اپوزیشن گالی اور تشدد کی سیاست کرنا چاہتی ہے، پاکستان میں کوئی مذہبی اقلیت محفوظ نہیں، ہم مسلمانوں کے اندر جو چھوٹے فرقے ہیں وہ تک محفوظ نہیں، یہ ایسی بات ہے کہ سب کو شرمسار ہونا چاہیے مگر ان کو شرم و حیا نہیں آرہی ہے۔بعد ازاں وزیر دفاع نے بتایا کہ ہم ایک قرارداد لانا چاہتے ہیں تاکہ اقلیتیں محفوظ رہ سکیں، یہ ملک سب کا ہے، جب اس موضوع پر ایوان میں بات کی جاتی ہے تو اپوزیشن والے اس موضوع کا گلہ گھونٹ رہے ہیں، یہ اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میں اس ایوان میں ان کے مسائل کا بھی جواب دوں گا مگر یہ مجھے بولنے نہیں دے رہے، اقلیتوں کے قتل کا سلسلہ بند ہونا چاہیے، ہمارا مذہب بھی اس کی اجازت نہیں دیتا، لوگ ذاتی جھگڑوں پر توہین کا الزام لگا کر لوگوں کو قتل کر رہے ہیں، اس وقت تمام لوگوں کو یکجا ہوجانا چاہیے۔قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیراطلاعات عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ اپوزیشن نہیں چاہتی کہ طالبان کیخلاف آپریشن ہو۔انہوں نے کہا جب ہم اپوزیشن میں تھے تو شیڈو بجٹ پیش کرتے تھے، افسوس تنقید برائے تنقید کی جاتی ہے، بجٹ سیشن کی کچھ روایات ہیں جو کئی دہائیوں سے چلی آرہی ہیں۔عطا تارڑ نے کہا کہ شیڈو بجٹ بنانے میں بہت محنت لگتی ہے، اپوزیشن والے نعرے لگاتے ہیں، شیڈو بجٹ بنانے کی جسارت نہیں کریں گے، مستی خیل ہمارے پانچ سال ایم پی اے رہے، ثنا اللہ مستی خیل نوازشریف کوآقا، مائی باپ کہتے تھے، کل جو کچھ اس ایوان میں ہوا نہیں ہونا چاہئے تھا۔وفاقی وزیر نے کہا کہ اپوزیشن کو یہ مسئلہ ہے کہ سٹاک ایکسچینج ریکارڈ بنا رہی ہے، مدین میں شواہد کے بغیر ایک انسان کو قتل کر دیا گیا، سری لنکن منیجر کو مذہب کے نام پر قتل کر دیا گیا، سری لنکن منیجر کا کیا قصورتھا؟ انہوں نے اپوزیشن کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جوطالبان کو واپس لیکر آئے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ گڈ اوربیڈ طالبان کی بحث کس نے شروع کی تھی ایوان کو بتایا جائے، جب کسی کو طالبان کی گولی لگتی ہے تو اس پر گڈ، بیڈ طالبان نہیں لکھا ہوتا، کل آپریشن عزم استحکام کی منظوری دی گئی، یہ معاملہ کابینہ میں بھی آئے گا۔عطا تارڑ نے مزید کہاکہ عزم استحکام آپریشن سے ہم نے ملک کو محفوظ بنانا ہے، چین پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے، آج ایک قرارداد پیش کی گئی ہے، کیا ہی اچھا ہوتا اس قرارداد کے حق میں ہمارے ساتھ کھڑے ہوتے، ہم نے سرمایہ کاروں کے لئے ملک کومحفوظ بنانا ہے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ یہ طالبان کے حق میں نعرے لگا رہے ہیں، اپوزیشن والے گالم، گلوچ کے بجائے کوئی ایسی تجاویز لائیں جس پر ہم عمل کر سکیں، اپوزیشن کے پاس بجٹ کی کوئی تجاویز ہیں تو ان کو شامل کیا جائے گا مگر ان میں ایسی قابلیت نہیں، یہ چاہتے ہیں پاکستان میں عدم استحکام رہے۔اس سے قبل قومی اسمبلی اجلاس کے دوران  سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی کے آزاد اراکین نکتہ اعتراض پر بولنے کی اجازت نہ دینے پر قومی اسمبلی سے واک آوٹ کرگئے تاہم حکومتی ارکان کچھ دیر بعد انہیں مناکر واپس لے آئے۔

قرار داد منظور

   اسلام آباد (این این آئی)پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ کسی بھی آپریشن کے لیے پارلیمان کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ گزشتہ روز قومی اسمبلی میں اپوزیشن رہنما ثنا اللہ مستی خیل نے پنجابی میں الفاظ ادا کیے، وہ الفاظ ان کی زبان سے غلطی سے نکل گئے تاہم ہم اس کا جواز نہیں پیش کریں گے  انہوں نے اپنے الفاظ پر معذرت کی یہ کسی بھی ممبر قومی اسمبلی کیلئے بڑی بات ہے۔انہوں نے کہاکہ آپریشن استحکام شروع ہورہا ہے، پہلے بھی جب آپریشن ہونے جارہا تھا اور آئین میں ترمیم کردی گئی تھی تو اس میں بھی پارلیمان کے کردار کا ذکر ہے، کوئی بھی آپریشن ہو چاہے، انٹیلی جنس بیسڈ ہو یا کوئی خاص تاثیر میں ہو تو اس کے لیے پارلیمان کو اعتماد میں لینا ضروری ہے، ہمیں پوائنٹ آف آرڈر میں یہ نقطہ نظر اٹھانا تھا کہ ہماری عسکری قیادت نے جیسے پہلے پارلیمان میں آکر ان کیمرہ بریفنگ دی، ان کو بتایا کہ کیا صورتحال ہے، ویسے ہی اب ہو، چاہے کوئی بھی کمیٹی ہو وہ پارلیمان سے بالاتر نہیں ہوسکتی تو کوئی بھی آپریشن پارلیمان کو اعتماد میں لیے بغیر شروع نہ ہو۔بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہمیں یہ آرڈر اٹھانے نہیں دیا گیا قومی اسمبلی میں اس لیے ہم نے واک آٹ کیا۔بعد ازاں سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم کسی طور پر کسی آپریشن کی حمایت نہیں کرسکتے، اس وقت قومی اسمبلی کا اجلاس جاری ہے، آپ اتنا بڑا فیصلہ کر رہے ہیں مگر پارلیمان کو خاطر میں نہیں لاتے تو یہ اتنا بڑا پارلیمان کس لیے ہے؟ میں نے کل مولانا سے بھی بات کی اور ابھی میں نے ایوان کے اندر خورشید شاہ اور رانا تنویر سے بھی بات کی ہے کہ یہ کیا ہورہا ہے؟اسد قیصر نے بتایا کہ ہم سے کوئی مشاورت نہیں کی جاتی، بہت سے آپریشنز ہوچکے ہیں، آج تک کونسا آپریشن کامیاب ہوا ہے؟ ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف ہیں، ایک طرف یہ آپریشن کر رہے دوسری طرف فاٹاا ور پاٹا پر ٹیکس لگا رہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ آج میڈیا بھی کنٹرول ہے، پی ٹی وی کے لوگ خاص اینگل پر کیمرہ لگاتے ہیں اور چیزیں چلاتے ہیں، یہ مارشل لا کی ذہنیت ہے اور ہم اس کی مذمت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتا ہوں کہ اگر کوئی فیصلہ ہوا ہے تو پارلیمان میں لایا جائے اور اسے اعتماد میں لیا جائے۔بعد ازاں قومی اسمبلی میں حزب اختلاف عمر ایوب نے بتایا کہ میں اپنی سیٹ سے اٹھا اور بات کرنی چاہی مگر اسپیکر ایاز صادق نے ہمیں وقت نہیں دیا، میرا ان سے احترام کا رشتہ ہے مگر ان سے گلہ ہے کہ ان کا رویہ اپوزیشن کے ساتھ ٹھیک نہیں، وہ کس دبا ؤمیں کام کر رہے ہیں یہ ہمیں معلوم نہیں، ہم اپنی عوام کی نمائندگی یہاں پر کر رہے ہیں۔قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے کہا کہ درحقیقت فارم 45 کے تحت 180 سیٹیں تحریک انصاف کی ہیں۔عمر ایوب نے کہا کہ چین سے آئے ساتھیوں نے واضح طور پر کہا تھا سی پیک پر سیکیورٹی خدشات ہیں۔

اپوزیشن احتجاج

مزید :

صفحہ اول -