یہ امریکی جرنیل! (2)
گزشتہ سے پیوستہ
ستمبر 1939ء میں یورپ میں دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو امریکہ اس میں شامل نہ ہوا اور غیر جانبدار رہا۔ امریکن سیاستدانوں کو جن چند جرنیلوں نے جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر خواب خرگوش سے جگایا ان میں جنرل جارج سی مارشل کا کتنا بڑا رول تھا، اس کا اندازہ جنرل آئزن ہاور کی خودنوشت ”کروسیڈ اِن یورپ“ (Crusade In Europe) کے درج ذیل اقتباس سے لگایا جا سکتا ہے۔
”یکم جولائی 1939ء کو امریکی افواج (آرمی، نیوی، ایئر فورس) کی کل تعداد 130000سے بھی کم تھی…… امریکی عوام کا خیال تھا کہ ان کی سرزمین جنگ کی خونریزیوں سے بہت دور ہے۔ یورپ اور امریکہ اور پھر ایشیاء اور امریکہ کے مابین ہزاروں میل کا فاصلہ ہے۔بہت ہی کم ایسے لوگ تھے جن کو یہ احساس تھا کہ امریکہ کی خوشحالی اور جنگ کے میدانوں سے اس کی دوری کے مابین کوئی براہ راست تعلق بھی ہے۔ وہ مٹھی بھر امریکی کہ جن کو اندازہ تھا کہ اس جنگ کی امریکہ کو کیا اور کتنی ضرورت ہے ان کا تعلق یا تو امریکن آرمی سے تھا یا ایک دو ایسے سویلین مدبرین تھے جو یہ سمجھتے تھے کہ امریکہ اب زیادہ دیر تک اس جنگ سے لاتعلق نہیں رہ سکے گا“۔
”1940ء کا موسم بہار آیا تو امریکیوں کو کچھ ہوش آنا شروع ہوئی۔ وسط 1940ء تک امریکی فوج کی تعداد پونے چار لاکھ کر دی گئی اور ایک سال کے اندر اندر اسے مزید بڑھا کر 15لاکھ کر دیا گیا۔ امریکہ نے اتنی بڑی فوج زمانہ ء امن میں اس سے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی…… لیکن ان فوجیوں میں سے دس لاکھ ایسے فوجی تھے جو نیشنل گارڈ کہلاتے تھے اور جواپنے ملک سے باہر جا کر لڑنے کے پابند نہ تھے۔ نہ ہی ان کو بارہ ماہ سے زیادہ امریکہ کے اندر کسی میدان جنگ میں لڑنے پر مجبور کیا جا سکتا تھا!…… امریکی قوم کی جنگ و جدل سے لاتعلقی کا اندازہ اس بات سے لگایئے کہ جب دسمبر 1941ء میں جاپان نے پرل ہاربر پر حملہ کر دیا تو اس وقت بھی کانگریس کے ایوان نمائندگان نے صرف ایک ووٹ کی برتری سے یہ اجازت دی کہ ان ٹروپس کو سمندر پار بھی بھیجا جا سکتا ہے!…… اور کانگریس کی یہ منظوری بھی جنرل جارج سی مارشل کی ذاتی مداخلت کی وجہ سے ممکن ہوئی!!“
ان حالات میں جب فوج میں اتنی زیادہ توسیع ہو گئی تو میجر آئزن ہاور کے دن بھی پھرنے لگے۔ نومبر1940ء میں اسے لیفٹیننٹ کرنل کے رینک میں 3ڈویژن کا چیف آف سٹاف(پاک آرمی میں جی ایس او۔ ون کے برابر) اور پھر مارچ 1941ء میں 9آرمی کور کا چیف آف سٹاف(پاک آرمی میں کرنل جی ایس کے برابر) مقرر کیا گیا۔ تب اس کا رینک فل کرنل تھا۔ ستمبر 1941ء میں اسے بریگیڈیئر جنرل کے رینک میں ترقی دی گئی۔ جب امریکہ دسمبر 1941ء میں باقاعدہ اس جنگ میں شامل ہوا تو آئزن ہاور کا رینک بریگیڈیئر ہی تھا۔
دوسری جنگ عظیم میں
امریکہ کی اس جنگ میں شمولیت سے پہلے ہی آئزن ہاور کی شہرت او رپیشہ ورانہ اہلیت کا اندازہ سینئر افسروں کو ہو چکا تھا۔ جنرل میکارتھر اور جنرل پیرشنگ اس کے مداحوں میں سے تھے۔ چنانچہ دسمبر 1941ء میں امریکی فوج کے چیف آف سٹاف، جنرل جارج سی مارشل نے آئزن ہاور کو آرمی وار پلان ڈویژن میں اسسٹنٹ چیف آف سٹاف تعینات کر دیا۔ یہاں آئزن ہاور کو جنرل مارشل کے ساتھ مل کر کام کرنے کا موقع ملا۔ یہیں ان دونوں نے اتحادی افواج کے اوورآل سٹرٹیجک پلان تشکیل دیئے جن کا لب لباب یہ تھا کہ اگرچہ جاپان پرل ہاربر پر حملے کے بعد مشرق بعید میں تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ تاہم اس کو فی الحال محض روکنے پر اکتفا کیا جائے اور سارا زور نازی جرمنی کی یورپ میں شکست پر مرکوز کر دیا جائے۔
مارچ 1942ء میں آئزن ہاور کو میجر جنرل بنا دیا گیا اور دو ماہ بعد یورپ میں امریکی افواج کی کمانڈ اس کے حوالے کی گئی۔ یہاں پہلی بار اتحادیوں کو آئزن ہاورکی متوازن اور معتدل طبیعت کا اندازہ ہوا۔ وہ اپنے مخاطب کو اپنا بنانے کا فن جانتا تھا۔اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی اپنائیت تیرتی رہتی تھی اور ہونٹوں پر ہر وقت ایک دلآویزسی یگانگت پھیلی رہتی تھی جو تحکم کی بجائے تدبر کی غماز اور تنقید کی بجائے تحسین کا پہلو لئے ہوئے ہوتی۔ برطانوی جرنیل، اپنے آپ کو امریکی جرنیلوں سے کہیں زیادہ تجربہ کار اور پیشہ ورانہ اعتبار سے بہتر سمجھتے تھے (اور اس میں کچھ شک بھی نہ تھا) لیکن آئزن ہاور نے اس ٹیکٹیکل فکر کی سطح سے اوپر اٹھ کر اس سٹرٹیجک فکر کے لیول کا مظاہرہ کیا جس کی ان ایام میں اشد ضرورت تھی۔ تاریخ گواہ ہے کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو امریکی اور برطانوی افواج کبھی بھی مل کر ایک مشترکہ دشمن کے خلاف وہ لڑائیاں نہ جیت سکتیں جو انہوں نے جیتیں۔ تاہم اس فکری کشیدگی میں پہلی شکست امریکہ نے کھائی۔ امریکی جرنیلوں کا اصرار تھا کہ ہٹلر کی افواج پر رودبارِ انگلستان عبور کرکے فی الفور حملہ کر دینا چاہیے اور اسے یورپی مقبوضات سے بے دخل کرکے اس کو سرحدوں کے اندر سمٹ جانے پر مجبور کر دینا چاہیے۔ جنرل مارشل کے اس پلان کی برطانوی جرنیلوں نے مخالفت کی۔ان کا موقف تھا کہ جرمن اور اطالوی افواج کو پہلے بحیرہ روم میں شکست دی جائے تاکہ جنرل رومیل قاہرہ سے نکل کر ایران سے ہوتا ہوا ہندوستان میں جاپانی افواج سے ملاپ نہ کر سکے۔ برطانوی ہائی کمانڈ کا خیال تھا کہ اگر پہلے محوریوں (جرمنی اور اٹلی) کو شمالی افریقہ، بحیرہ روم اور اٹلی میں شکست دے کر ان کی کمر نہ توڑی گئی تو محض انگلش چینل کو عبور کرکے فرانس پر حملہ کرنے سے جرمن افواج کو شکست نہیں دی جا سکتی…… اب تاریخ کے جھروکے سے پیچھے مڑ کر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ برطانوی ہائی کمانڈ کا موقف درست تھا اور امریکی ہائی کمانڈ غلطی پر تھی۔
جولائی 1942ء میں آئزن ہاور کو لیفٹیننٹ جنرل پروموٹ کر دیا گیا اور آپریشن ”ٹارچ“ کا سربراہ بنا دیا گیا۔ اس آپریشن سے مراد شمالی افریقہ پر اتحادی حملہ تھا۔ یہ آپریشن اتحادی افواج کا پہلا بڑا آپریشن تھا اور پہلا بڑا امتحان بھی تھا جس میں اتحادیوں کے ”اتحاد“ یا ”انتشار“ کی آزمائش ہونے جا رہی تھی……
اتحادی افواج نومبر 1942ء میں شمالی افریقہ کے ساحل پر لنگر انداز ہوئیں اور مئی 1943ء تک تیونس پر قبضہ کرلیا۔ اس مہم کے دوران آئزن ہاور کی اعتدال پسندی اور قوت برداشت کا بار بار امتحان ہوتا رہا۔ امریکی، برطانوی اور فرانسیسی بری، بحری اور فضائی فورسز کے مشترکہ آپریشن نہایت مشکل اور پیچیدہ آپریشن تھے۔ فروری 1943ء میں آئزن ہاور کو فل جنرل پروموٹ کر دیا گیا اور اس نے جولائی اگست 1943ء میں سسلی پر اتحادی افواج کی یلغار کی کمانڈ کی اور پھر ستمبر 1943ء میں مین لینڈ اٹلی پر بھی حملہ کر دیا۔
اب وقت آ گیا تھا کہ قابض جرمن افواج پر شمال کی طرف سے بھی حملہ کیا جائے…… دسمبر 1943ء میں آئزن ہاور کو سپریم ہیڈکوارٹر الائیڈ ایکس پیڈنشری فورس (SHAEF) کا کمانڈر مقرر کیا گیا اور یورپ پر اتحادی حملے کی پلاننگ کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔تاریخ میں اس آپریشن کا نام ”اوورلارڈ“ہے۔ یہ تاریخ کا سب سے بڑا برآبی (Amphibious) آپریشن کہلاتا ہے۔ اس پر بیسیوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ اس کی پلاننگ بہت سی پیچیدہ لاجسٹک ضرورتوں اور نزاکتوں پر محیط تھی۔ 6جون 1944ء کی تاریخ بھی جو اس یلغار کے آغاز کی تاریخ تھی آئزن ہاور ہی نے منتخب کی تھی۔
جب فرانس پر اتحادی فورسز کا قبضہ ہو چکا تو وہاں سے جرمنی کے خلاف یلغار کرنے کی سٹرٹیجی کے سوال پر برطانوی اور امریکی جرنیلوں کے درمیان کشیدگی پیدا ہوگئی۔ برطانوی جنرل (بعد میں فیلڈ مارشل) منٹگمری کی خواہش تھی کہ جرمنی کے خلاف ایک محدود محاذپر یلغار کی جائے۔ آج کل کی اصطلاح میں ایسی یلغار کو ایک بڑے پیمانے کی ”سرجیکل سٹرائیک“ بھی کہا جا سکتا ہے۔ منٹگمری چاہتا تھا کہ اس یلغار کی کمانڈ اس کو دی جائے جبکہ امریکی جنرل پیٹن کا بھی تقاضا یہی تھا کہ جرمنی کے خلاف ایک ایسا بڑا اور بھرپور حملہ کیا جائے جس کی حدود محاذ زیادہ وسیع نہ ہوں اور وسائل کا سارا زور کم سے کم وقت میں برلن تک پہنچنے پر لگا دیا جائے اور اس کی کمانڈ اسے دی جائے تاہم آئزن ہاورنے فیصلہ کیا کہ یہ یلغار ایک محدود محاذ پر نہیں بلکہ وسیع محاذ پر کی جائے گی اور اس میں ساری اتحادی افواج شامل ہوں گی…… اس کا یہ فیصلہ جہاں سیاسی مضمرات کا حامل تھا،وہاں پیشہ ورانہ پہلوؤں کو بھی محیط تھا۔ (جاری ہے)