بہت خوش اخلاق تھی، لیکن جب مزاج برہم ہوتا تو مخالف فریق کے پاس راہ فرار کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہتا، جتنی نفیس تھی ویسے ہی شوق بھی تھے
مصنف:محمد سعید جاوید
قسط:311
بہت خوش اخلاق تھی، لیکن جب مزاج برہم ہوتا تو پھر مخالف فریق کے پاس راہ فرار اختیار کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ رہتا تھا۔ جتنی نفیس وہ خود تھی ویسے ہی خوشنما شوق بھی پالے ہوئے تھے جن میں مطالعہ اورکراس سٹچ کا شوق عروج پر تھا، جس سے وہ ایسے ایسے شاہکار تخلیق کرتی تھی کہ دیکھنے والا عش عش کر اٹھتا تھا۔ ڈھیر ساری دفتری اور گھریلو مصروفیات کے باوجود وہ تسلی سے اپنی ساری خواہشات پوری کر لیتی تھی جس میں پاکستانی ٹیلیویژن کے ڈرامے، ہندی فلمیں اور کرکٹ میچ دیکھنے کے علاوہ ہر طرح کے دیسی اورحیدر آباد کے کھٹے کھٹے مصالحے دار اور انتہائی لذیذ کھانوں کی تیاری بھی ہوتی تھی جو ہم متعدد بار اس کے گھرمیں جا کر کھا آتے تھے۔ ہمیشہ شاندار مگر روایتی لباس پہنتی تھی۔ انگلش میڈیم میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے اس کا انگریزی زبان پر زبردست عبور تھا اور ہم سب سرکاری خطوط میں لکھی گئی اپنی انگریزی کی دُرستگی کے لیے ہمیشہ اس کا منت ترلا کیا کرتے تھے، اور وہ استادوں کی طرح چھان پھٹک کرکے اس میں کی گئی حماقتیں اور غلطیاں چن دیتی تھی۔
پھراچانک اسے اردو ادب کا شوق ہوا اور اس غضب کا ہوا کہ ہم جیسے نام نہاد اردو دان بھی منہ چھپائے پھرتے تھے کہ نا جانے کس وقت وہ کس لفظ کا مطلب پوچھ بیٹھے اور ٹھیک ٹھاک قسم کی بے عزتی کا سامنا کرنا پڑ جائے۔ اسے اردو لکھنا پڑھنا بالکل بھی نہیں آتی تھی اس لئے پہلے پہل اردو کے لفظ رومن انگلش میں تحریر کرتی رہی پھر آہستہ آہستہ اردو کو اردو میں ہی لکھنا شروع کر دیا اور اپنے اس فن کو بلندیوں تک پہنچا دیا۔ میرے پاکستان واپس آنے تک اس کو اس کام میں ایساعبور حاصل ہو گیا تھاکہ اب وہ اقبال اور غالب کے ایسے ایسے شعروں کا حوالہ دینے لگی تھی جو ہمیں بھی بڑے غور و خوض کے بعد رات دیر گئے ہی سمجھ میں آتے تھے۔ کچھ دوستوں خصوصاً دادا بھائی کا خیال تھا کہ اس کے سر کے اندر کسی غیر مرئی چیز کا ”بھیجا“ فٹ تھا جو ہر الٹی سیدھی بات کو بڑی تیزی سے قبول کر لیتا ہے۔میرا اپنا خیال بھی اس بارے کچھ ایسا ہی تھا۔
اس کی ناقابل یقین حد تک اچھی یادداشت ہمیشہ ہمارے لیے بُرے وقت کا سہارا اور بے وقت کی شرمندگی کا باعث بنی رہتی تھی، کسی خط و کتابت، پالیسی یا نوٹیفکیشن کا حوالہ حاصل کرنا ہو تو کسی نہ کسی طرح اس تک پہنچ جاؤ بس سمجھ لیں کہ مسئلہ حل ہو گیا، وہ فوراً ہی متعلقہ دستاویز ڈھونڈ کرآپ کے ہاتھ میں تھما دیتی تھی۔ اس کی اسی خصوصیت، ان تھک محنت اور ایک شاندار آفس مینجر ہونے کی وجہ سے اس کی ہر سطح پر بہت پذیرائی ہوتی تھی۔ انتظامیہ بجا طور پر اسکی ذہانت، جاں فشانی اور کام پر موثر کنٹرول ہونے کا برملا اعتراف بھی کرتی تھی اور دوران ملازمت اس کو اسی بنیاد پربے شمار ترقیاں اور بونس ملتے رہتے تھے۔
بتول کی سجاد سے بالکل نہیں بنتی تھی اور اکثر معاملات پر دونوں کے سینگ پھنسے ہوئے نظر آتے، سجاد اپنی غیر معمولی سنجیدہ اور سیمابی طبیعت کے زیر اثر ہندوستان کے بارے میں کچھ نہ کچھ کھرا کھوٹا کہہ بیٹھتا تھا اور پھر جواب میں ایک کے بدلے دس سنتا تھا۔ بتول بھی ایمان داری کی حد تک ہندوستان کے بارے میں حساس تھی اور اسے اپنے ملک کے لیے کچھ بھی غلط سننا گوارا نہ تھا، جب کہ پاکستانی حسب عادت کوئی نہ کوئی شرارت یا طنز کرنے سے باز نہیں آتے تھے اور پھر یہ تو ہونا ہی ہوتا تھا۔اکثر سجاد کو تیز تیز قدموں سے اور بڑبڑاتے ہوئے اس کے کمرے سے نکلتا ہوا دیکھا جاتا۔اس کے ساتھ وہاں کچھ اچھا تویقینا نہیں ہوتا ہو گا۔
بتول جب بھی کوئی الٹا سیدھا کام ہوتا دیکھتی تھی تو تبصرہ کیے بغیر نہ رہ سکتی تھی اور جاتے جاتے حیدرآبادی زبان میں آوازے بھی کس دیتی۔ میں، دادا اور جیکب اکثر اس کی جولانی طبع کا شکار ہوتے تھے، جب ہم سے کوئی جواب نہ بن پاتا تو عز ت آبرو بچا کر وہاں سے کھسک جانے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔