نجی ادارے کو چلانا قدرے مختلف کہانی تھی، میرا اس شعبے میں کوئی تجربہ نہیں تھا، بعد از ریٹائرمنٹ آگے بڑھنے کی کچھ نئی راہیں تلاش کر رہے تھے

 نجی ادارے کو چلانا قدرے مختلف کہانی تھی، میرا اس شعبے میں کوئی تجربہ نہیں ...
 نجی ادارے کو چلانا قدرے مختلف کہانی تھی، میرا اس شعبے میں کوئی تجربہ نہیں تھا، بعد از ریٹائرمنٹ آگے بڑھنے کی کچھ نئی راہیں تلاش کر رہے تھے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمد اسلم مغل 
تزئین و ترتیب: محمد سعید جاوید 
 قسط:142
دی  انٹرنیشنل یونیورسٹی
ڈاکٹر ایم شریف بھٹی ایک روز ایک کاروباری پیشکش کے ساتھ میرے پاس تشریف لائے۔ وہ یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ٹیکسلا سے ریٹائر ہوئے تھے۔ اور اب بعد از ریٹائرمنٹ آگے بڑھنے کی کچھ نئی راہیں تلاش کر رہے تھے۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ یہاں انٹرنیشنل یونیورسٹی نام کا ایک تعلیمی ادارہ اور اگر ہم چاہیں تو اس کے شئیر ہولڈر بن سکتے ہیں۔ مجھے اس ادارے کے بارے میں پہلے سے علم تھا کیونکہ میری بیٹی مدیحہ اور اس کے شوہر بلال یہاں پڑھتے رہے تھے۔میں نے کسی قسم کی اور بالخصوص تعلیمی ادارے سے متعلق کاروباری پیشکش کو قبول کرنے سے انکار کر دیا کیوں کہ میرا اس شعبے میں کوئی تجربہ ہی نہیں تھا۔ انھوں نے غالباً یہ طے کیا تھا یا جیسا کہ میں نے ان کی گفتگو سے اندازہ لگایا تھا کہ وہ اس ادارے کو چلائیں گے اور میں اس کا شئیر ہولڈر رہوں گا۔ لیکن یہاں ایک بڑی مشکل یہ تھی کہ پہلے وہ ایک سرکاری ادارے یعنی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ٹیکسلا کے سربراہ تھے جو پوری طرح حکومت کی امداد اور سرمایہ سے قائم ہوا تھا اور سرکاری فنڈ ہی سے چلایا جا رہا تھا۔ لیکن ایک نجی ادارے کو چلانا قدرے مختلف کہانی تھی۔ ان کے مسلسل اصرار اور درخواست کرنے پر میں نے اس شرط پر اس میں شمولیت کی حامی بھر لی کہ میں اس میں غیر فعال حصہ دار رہوں گا۔ اس ادارے کے بڑے اور مرکزی حصہ دار رانا خورشید صاحب تھے۔ جو اس میں سے کچھ حصہ بیچنا چاہ رہے تھے کیونکہ ان کو کہیں دوسری جگہ سرمایہ کاری کرنا تھی۔ میں رانا خورشید کو اس زمانے سے جانتا تھا جب میں ایل ڈی اے میں چیف میٹرو پولیٹن پلانر تھا اور یہ وہاں پبلک ریلیشن افسر ہوتے تھے۔ پھر وہ بھی ایک دن ملنے آئے اور مجھے اس ادارے میں شامل ہونے کے لیے درخواست کی۔ 
ایک دن میں انٹرنیشنل یونیورسٹی چلا گیا،یہ جانے بغیر،کہ اس یونیورسٹی میں میرا کردار اور مصروفیات کیا ہوں گی۔ وہاں رانا خورشید نے بہت گرمجوشی سے میرا استقبال کیا اور پھر وہ مجھے یونیورسٹی کے ایک مرکزی کمرے میں لے گئے، یہ گلبرگ کے وسطی علاقے میں کرائے پر حاصل کی گئی ایک عمارت تھی۔ ہماری باہمی مفاہمت میں یہ طے پایا تھا کہ شریف بھٹی اس ادارے کا انتظام سنبھالیں گے اور مجھے یہاں ایک دفتر کی جگہ مہیا کی جائے گی جہاں میں دوستوں سے ملاقات کر سکوں گا۔ کچھ عرصے بعد شریف بھٹی نے چوہدری نذیر احمد کو بھی اس گروپ میں شامل ہونے پر راضی کرلیا۔ وہ تو ٹھیک ہے کہ دوستوں کا یہ ایک اچھا گروپ بن گیا تھا لیکن ہم دونوں میں سے کسی کو بھی تعلیمی ادارہ چلانے کا تجربہ نہیں تھا۔ میں سمجھ رہا تھا کہ ہم دوست وہاں آپس میں ملاقات کیا کریں گے کچھ گپ شپ ہوگی اس کے علاوہ مستحق طلبہ کو تعلیم حاصل کرنے میں کچھ مدد کر دیا کریں گے۔ لیکن جو بات ہم نظر انداز کر رہے تھے وہ یہ تھی کہ یہ کوئی خیراتی ادارہ نہیں ہے، ہمیں اس کو کاروباری ادارے کے طور پر چلانا چاہئے اور اس طرح ہم جو رقم بچا سکیں اس میں سے ہم کسی کی مدد کر سکیں گے۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -