استاد سے شاگرد کی ”استادی“

استاد سے شاگرد کی ”استادی“
استاد سے شاگرد کی ”استادی“

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

علامہ غلام یعقوب انور پیشہ کے لحاظ سے وکیل تھے، لیکن ان کا نام اُن کے تخلیقی کارناموں کے باعث زندہ ہے۔ وہ بہت اچھے شاعر اور نثر نگار تھے۔ یہ صلاحیتیں انہیں اپنے والد مرحوم عبدالغنی وفا سے ورثے میں ملی تھیں، جو اپنی ذات میں خود پنجابی کے صاحب ِ اسلوب شاعر تھے۔ گوجرانوالہ کے چوک نیائیں کے نزدیک حافظ آباد روڈ پر واقع ”انور لاج“ مدت دراز تک ادبی اور علمی سرگرمیوں کا مرکز بنا رہا۔ علامہ صاحب 21جنوری 1974ءکو60سال کی عمر میں داعی¿ اجل کو لبیک کہہ گئے تو ”انور لاج“ کی رونقیں بھی ماند پڑ گئیں، گویا:
اک دھوپ تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے
کوئی دو سال ہوتے ہیں، علامہ صاحب کے فرزند طارق انور دیار غیر میں طویل عرصے تک مقیم رہنے کے بعد گھر لوٹ آئے۔ والد صاحب کا لکھتی سرمایہ نکالا اور اسے شائع کرنے کا عزم باندھا۔ اس سرمائے میں کچھ چیزیں مطبوعہ ہیں مثلاً: کافیاں شاہ حسین (انگریزی ترجمہ)، ادبی اصطلاحات کے بارے ”بول تے تول“ اور پنجابی غزلیات کا انتخاب ”چن دی کھاری“۔ اس کے علاوہ ان کا پنجابی عروض کے حوالے سے ایک سلسلہ ¿ تحریر (اُردو) مجلہ ”صحیفہ“ میں شائع ہوا تھا۔ غیر مطبوعہ سرمائے میں پنجابی غزلیات اور نظموں کے چھ، سات مجموعے شامل ہیں۔ ان میں ایک کتاب” دھونی“ کے عنوان سے بھی ہے جسے علامہ صاحب نے اپنے حین حیات ہی ترتیب دیا تھا اور جس کی کتابت معروف شاعر تنویر بخاری نے کی تھی۔ شیکسپیئر کے ڈرامے ”جولیئنس سیزر“ کا پنجابی نثرمیں ترجمہ اور وارث شاہ کے فکرو فن پر تنقیدی مضامین کا ایک مجموعہ ابھی تک غیر مطبوعہ حالت میں پڑے ہیں۔
طارق انور جب اس لکھتی سرمایہ سے ہمیں متعارف کروا چکے، تو ایک افسوسناک انکشاف یہ کیا کہ علامہ صاحب کے ایک شاگرد جناب امین خیال نے علامہ صاحب کی شاعری کا کچھ حصہ اپنے نام سے شائع کر لیا ہے۔ امین خیال آج کل تو لاہور میں مقیم ہیں، لیکن اُن کی زندگی کا ایک بڑا حصہ گوجرانوالہ شہر میں گزرا۔ مقامی ادبی حلقوں میں اُن کا نام معروف ہے۔ پیشے کے لحاظ سے سکول کے استاد رہے ہیں۔ طارق انور نے ہمارے سامنے علامہ صاحب کا مطبوعہ اور غیر مطبوعہ کلام اورا مین خیال کی دو کتابیں ”شرلاٹے“ اور”سولاں سر سرداری“ رکھیں۔ کہنے لگے: ہمایوں صاحب! ہمارا معاشرہ اخلاقی طور پر بہت زوال پذیر سہی، لیکن یہ کتنے ستم کی بات ہے کہ شاگرد اپنے استاد کے کلام پر ہاتھ صاف کر لے۔ ہم نے پوچھا: یہ تو بتایئے خیال صاحب کے ہاتھوں میں بیاضیں کیسے پہنچیں؟ ہم تو مدت سے یہی سنتے آ رہے ہیں کہ علامہ صاحب مرحوم کے پسماندگان کسی سے تعاون نہیں کرتے۔ نہ وہ خود علامہ کی تحریریں چھاپتے ہیں اور نہ کسی صاحب علم کو دکھانے پر تیار ہوتے ہیں۔ طارق انور نے جواب دیا: خیال صاحب بلاشبہ علامہ کے شاگرد خاص تھے۔ علامہ کی زندگی میں آتے رہتے تھے، چنانچہ ہمارے لئے اجنبی نہ تھے۔ علامہ کی وفات کے بعد ایک روز خیال صاحب نے مجھ سے مرحوم کی بیاضیں طلب کیں، مقصد یہ بتایا کہ اُن کے کلام کو ”سدھ پدھرا“ کر کے حوالہ ¿ اشاعت کیا جائے۔ یہ ”سدھ پدھرا“ کے الفاظ بالکل اُنہیں کے ہیں۔ مَیں نے بغیر کسی تردد کے اُٹھا کر سب کچھ اُن کے حوالے کر دیا۔ بعد میں کسی مقامی ادیب نے میری اِس حرکت کو حماقت سے تعبیر کیا۔ چنانچہ کوئی مہینہ بھر بعد مَیں نے خیال صاحب سے وہ مسودات طلب کئے تو انہوں نے جلد واپسی کا وعدہ کیا جسے ایفا ہوتے ہوئے پانچ چھ ماہ گزر گئے۔ اس کے بعد مَیں بیرون ملک چلا گیا۔ اب جو مَیں نے واپس آ کر والد مرحوم کی تحریریں کتابی صورت میں چھپوانے کا ارادہ کیا ہے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا ہوں کہ ایک بیاض سے اچھے خاصے صفحے غائب ہیں۔ غائب ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ اس بیاض کے تمام صفحات پر باقاعدہ نمبر درج ہیں۔ دوسری افسوسناک بات یہ علم میں آئی کہ محترم امین خیال صاحب نے علامہ صاحب کی کئی غزلیں اپنے مجموعوں میں شامل کر لی ہیں۔
طارق انور نے ایک بیاض کھولی اور ایک غزل ہمارے سامنے رکھ دی۔ قارئین بھی ملاحظہ فرمائیں:
بدل ہجر دے چار چفیرے کل وی اویں آج وی اویں
یاد دا چانن سانجھ سویرے کل وی اویں آج وی اویں
بھجدی رات دے ٹُڈے تارے مڑ مڑ کہن تریل دے تائیں
ہنجوں کِر دے تیرے میرے کل وی اویں آج وی اویں
رانجھا گنڈھ دا مُڈھوں ڈِھلا ساد مرادی ہیر قدیمی
سہتی والے ہیرے پھیرے کل وی اویں اج وی اویں
عشق دے ہتھ وچ لوکی دَسدے شوق وفا دی لمی چوڑی
سجناں والے اُچے ڈیرے کل وی اویں آج وی اویں
سوہنی ایسے پتنوں ٹھلی انور ایسے گھاٹوں تریا
پیر جھناں دے گھمن گھیرے کل وی اویں آج وی اویں
اب دیکھئے علامہ صاحب کی غزل خیال صاحب کے” تخلیقی سانچے “میں کس طرح ڈھلی ہے:
قہر دے بدل چار چفیرے کل وی اونویں آج وی اونویں
آساں دے شب رنگ سویرے کل وی اونویں آج وی اونویں
بھجدی رات دے ٹڈے تارے مڑ مڑ کہن تریل دے تائیں
ہنجو کِر دے تیرے میرے کل وی اونویں آج وی اونویں
رانجھا گنڈھ دا مڈھوں ڈھلا ہیر وی پانجیاں دی ای پوری
کیدو والے ہیرے پھیرے کل وی اونویں آج وی اونویں
عشق دے ہتھ وچ پیار وفا تے پاگل پن دی لمی پوڑھی
قاضیاں والے اچے ڈیرے کل وی اونویں آج وی اونویں
سوہنی ایسے پتنوں ٹھلی انور ایسے گھاٹوں میں وی تریا
پیر جھناں دے گھمن گھیرے کل وی اونویں اج وی اونویں
(سُولاں سِر سرداری، ص128:)
اِسی طرح علامہ صاحب کی ایک غزل”چن دی کھاری“ میں شامل ہے:
وگنیاں جیہیاں ہوا واں نہیں ساتھوں پچھے
ٹٹنیاں انج تناواں نہیں ساتھوں پچھے
سوہنیا! تیری شہ نال، تیرے ای اُتے
کسے وی سٹنیاں لاواں نہیں ساتھوںِ پچھے
(چن دی کھاری ص157)
امین خیال صاحب نے تھوڑے بہت لفظی تغیر سے کام لے کر اسے بھی اپنے مجموعے ”شرلاٹے“ میں شامل کر لیا ہے۔ مثلاً علامہ صاحب کی ردیف ”ساتھوں پچھے“ کو ”ساڈے مگروں“ میں بدل لیا ہے۔ اب خیال صاحب کے ہاں یہی دو شعر ملاحظہ فرمائیں:
وگن ناہیں ایہو جئیاں واواں ساڈے مگروں
ٹٹن ناہیں کدرے انج تناواں ساڈے مگروں
سوہنیا چنا! تیریوئی اک شہ تھیں تیرے اُتے
کسے نہ سٹنیاں ساڈے وانگوں لاواں ساڈے مگروں
(شرلاٹے، صفحہ68)
آخر میں علامہ صاحب کی ایک غزل کے چار شعر ملاحظہ فرمائیں، جنہیں امین خیال نے بڑی سہولت سے ”اپنا“ بنا لیا ہے:
بدلاں توں وی کیوں اُچے نہ مضمون لیانواں
اج شعر سنن آیاں نے ساون دیاں وانواں
اک وار دا سڑیا تے ٹٹینے تو وی ڈر دا
چن نال وی میں ہُن کتے نظراں نہ ملا نواں
مُلاں! میرے ٹٹے ہوئے ٹھوٹھے تے نہ جاویں
توں آکھیں تے اسوچ تینوں کوثروں پیانواں
توبہ نوں تروڑاں نہ کہیا یاراں دا موڑاں
بیٹھا ہو یامے خانے دے وچ اونسیاں پانواں
(بیاض صفحہ23)
یہ چار شعرخیال صاحب کے مجموعہ غزلیات
 ”سُولاں سِر سرداری“ کے صفحہ54پر دیکھے جا سکتے ہیں:
بدلاں تو وی کیوں اچے نہ مضمون لیاواں
اج شعر سنن آیا اے اک یار اچاواں
اگ عشق دا ڈریا تے ٹٹینے توں وی ڈر دا
چن نال وی ہن میں نہ کدے نظر ملاواں
توبہ نوں تروڑاں نہ کہیا یار دا موڑاں
بیٹھا ہویا میخانے دے وچ اونسیاں پاواں
ملاں مرے ٹٹے ہوئے ساغر تے نہ جائیں
توں آکھیںاس ٹھوٹھے چ کوثر توں پیاواں
طارق انور نے جو ثبوت فراہم کئے ہیں، ہمارے نزدیک ناقابل تردید ہیں۔ پھر بھی جناب امین خیال جواب میں کچھ کہنا چاہیں تو یہ کالم حاضر ہے، وہ لکھیں، فیصلہ ہم قارئین پر چھوڑ دیں گے!

مزید :

کالم -