’’بیماری‘‘ نیب سے بچنے کا بہانہ بننے لگی

’’بیماری‘‘ نیب سے بچنے کا بہانہ بننے لگی
’’بیماری‘‘ نیب سے بچنے کا بہانہ بننے لگی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

احتساب کے حوالے سے نیب کا کردار بڑھتا جا رہا ہے۔ نیب سے فکر اُن کو ہے جو دھڑلے سے کرپشن کرتے رہے ہیں اور جن کا شمار بڑے اور انتہائی کرپٹ لوگوں میں ہوتا ہے۔۔۔ ’’ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز‘‘۔۔۔ اقبالؒ کا یہ مصرعہ اب یوں صادق آتا ہے کہ عام آدمی ہو یا خاص، سیاست دان ہو یا بیوروکریٹ ، یا کوئی اور بااثرشخص، اب نیب سے بچنے کی کسی کو اُمید نہیں۔ نواز شریف کے پچھلے دور میں احتساب کے لئے احتساب کا ایک ادارہ وفاقی سطح پر سیف الرحمن کی سربراہی میں ’’احتساب بیورو‘‘ کے نام سے قائم کیا گیا تھا۔ اس نے احتساب کی بے آوازلاٹھی، جس نے یہ لاٹھی انتہائی بے رحم انداز میں بے دریغ استعمال کی تو سیاستدانوں کی چیخیں نکل گئیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری اس احتساب بیورو کی لپیٹ میں آئے تو اس پر کتنی ہی انگلیاں اُٹھیں۔ کہا گیا کہ حکومت نے اپنے سیاسی مخالفوں کے لئے یہ احتساب بیورو قائم کیا ہے، انہیں اس کے ذریعے بے رحمانہ انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہی دنوں سرے محل کے قصّے بھی مشہور ہوئے۔ اربوں روپے کے اس محل کو آصف علی زرداری سے منسوب کیا گیا۔ کہا گیا کہ یہ اُن کی ملکیت ہے جو قوم کی لوٹی ہوئی دولت سے خریدا گیا۔


پہلے پہل تو آصف علی زرداری اور اُن کے حواری اس سے انکار کرتے رہے۔ تسلیم ہی نہیں کیا کہ یہ اُن کا ہے۔ بہت بعد میں سہی، مگر پھر یہ ’’اعترافِ گناہ‘‘ کر ہی لیا کہ سرے محل اُن کا ہے۔۔۔ سوئس بینکوں کی بات بھی آئی۔ جہاں آصف علی زرداری کے اکاؤنٹ تھے اور ان اکاؤنٹس میں پڑے اربوں ڈالر، کہاں سے آئے، کیسے آئے؟ آصف علی زرداری اور اُن کے حواری نہ بتا سکے۔ رفتہ رفتہ یہ قصّہ تمام ہوا۔ اس کی باز گشت پھر سنائی دی۔ نواز شریف اور اُن کی حکومت ان ’’ڈالرز‘‘ کے لئے کچھ نہ کر سکی، جن کے لئے وزیراعظم نواز شریف اور اُن کے بھائی شہباز شریف یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ وہ اربوں کی لوٹی یہ قومی دولت، ہر حال میں واپس پاکستان لائیں گے۔ یہ بات وہ تب کہتے تھے، جب حکومت میں نہیں تھے، اپوزیشن کا کردار ادا کر رہے تھے۔۔۔ لیکن جب اقتدار اور اختیار ملا تو قوم سے اپنا کیا ہوا یہ وعدہ بھول گئے کہ کبھی اُن کے وعدوں میں ’’سوئس بینک‘‘ بھی تھا اور وہ کبھی لوٹی ہوئی اس دولت کا ذکر کیا کرتے تھے۔ اس قومی دولت کو واپس لانے کی بات کی جاتی تھی۔ شہباز شریف تو جذبات میں کافی آگے نکل جاتے تھے کہ یہ دولت آصف علی زرداری کا پیٹ پھاڑ کر واپس لائیں گے، لیکن پھر ہم نے دیکھا، نہ کسی کا پیٹ پھاڑا جا سکا، نہ یہ قومی دولت سوئس بینکوں سے واپس لائی جا سکی۔ سرے محل بھی دُنیا کے لئے قصۂ پارینہ بن گیا۔


اب ڈاکٹر عاصم قابو میںآئے ہیں جو سابق وفاقی وزیر پٹرولیم ہیں۔ اُن کا شمار آصف علی زرداری کے انتہائی قریبی اور معتمد ساتھیوں میں ہوتا ہے، اب ڈاکٹر صاحب بھی کرپشن کے گھناؤنے ’’ الزام ‘‘ کی لپیٹ میں ہیں۔ اُن پر لاکھوں، کروڑوں نہیں، اربوں ہضم کر جانے کا الزام ہے۔ گھپلوں کے ذریعے انہوں نے جو حاصل کیا، اس کا حصّہ ’’اوپر‘‘ تک پہنچایا۔ ’’اوپر‘‘ کی بات آتی ہے تو بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ ’’اشارہ‘‘ کس طرف ہے۔رینجرز نے ڈاکٹر عاصم پر ہاتھ ڈالا۔ اپنی تحویل میں لیا اور 90دن کے ریمانڈ پر اپنے ہیڈ کوارٹر لے آئے اور تفتیش کا سلسلہ شروع کیا تو اس نوے روزہ بے رحمانہ تفتیش میں ڈاکٹر عاصم نے وہ سب کچھ اُگل دیا جس کی پیپلز پارٹی اور آصف علی زرداری کو امید نہیں تھی۔ڈاکٹر عاصم کے ’’انکشافات‘‘ آصف علی زرداری کے لئے زہر بھرا پیالہ تھا۔ ایسا کڑوا گھونٹ تھا، جسے نگلنا اُن کے لئے مشکل ہو رہا تھا۔ رینجرز ہیڈ کوارٹر میں ایسے ایسے ’’انکشافات‘‘ ہوئے، ایسے ایسے ’’شرفاء‘‘ کے نام آئے، جن کے بارے میں گمان نہیں کیا جا سکتا تھا کہ وہ اتنے ’’گندے‘‘ ہو سکتے ہیں۔ انکشافات و الزامات کی بھی فہرست تھی، جو ڈاکٹر عاصم نے بیان کی۔
یہاں سے نکلے تو سیدھے نیب کی تحویل میں چلے گئے، وہ بھی انہیں نیب عدالت سے جسمانی ریمانڈ پر اپنے ہیڈ کوارٹر لے آئے۔ جہاں ایک بار پھر ڈاکٹر عاصم سے تحقیق و تفتیش کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا۔ پھر وہی سوالات، وہی جوابات۔ کئی کھاتے اور کھلے اور کھلتے ہی چلے گئے۔ میڈیا کو نیب تفتیش کا جیسے جیسے پتہ چلتا، وہ اس کی تمام جزئیات اور تفصیلات عوام کے سامنے لے آتا، تاہم اس تفتیش میں نیا یہ ہوا کہ ڈاکٹر عاصم کو ذہنی مریض قرار دینے کی تیاریاں شروع ہو گئیں، عدالتی حکم پر انہیں ایک میڈیکل بورڈ کے سامنے پیش کر کے طویل طبی معائنے کے دوران یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ وہ واقعی ذہنی مریض ہیں، یعنی انہیں ’’پاگل‘‘ قرار دے دیا گیا۔ یہ رپورٹ ڈاکٹر عاصم کے وکلاء نے مجاز عدالت میں جمع کرا دی۔ جس کا مقصد ہی یہ تھا کہ میڈیکل گراؤنڈ پر ڈاکٹر عاصم کی ضمانت کا مرحلہ طے ہو سکے۔ اگرچہ بعد از گرفتاری ضمانت کی درخواست ابھی عدالت میں دائر تو نہیں کی گئی، لیکن یہ ’’المیہ‘‘ کسی وقت بھی ہو سکتا ہے۔ عدالت پابند ہوتی ہے کہ کسی کو بھی میڈیکل گراؤنڈ پر ’’بیل‘‘ دے دے۔


اس سے قبل سابق صدر آصف علی زرداری بھی علاج کے بہانے بیرون ملک ہیں۔ پی پی پی کی مقامی قیادت کے سامنے جب بھی آصف علی زرداری کی وطن واپسی کا سوال اٹھایا جاتا ہے، قمر زمان کائرہ جیسے نفیس اور شریف آدمی سمیت دیگر رہنماؤں کا یہی جواب ہوتا ہے کہ جب علاج مکمل ہو گا تو آصف علی زرداری واپس آ جائیں گے۔ شرجیل میمن، قادر پٹیل، فریال گوہر اور وزیر داخلہ سندھ سہیل سمیت اور بھی کئی رہنما بیرون ملک ہیں۔ بیمار ہیں یا نہیں، تاہم ’’بیماری‘‘ کو جواز بنا کر انہوں نے بیرون مُلک اپنی سکونت کا بہانہ ڈھونڈ لیا ہے۔نیب میں اب اور بہت سے لوگوں کے کھاتے کُھل چکے ہیں۔ کئی فائلوں کو لے کر اُن پر تحقیقات ہو رہی ہیں۔ کئی اور بڑے نام منظر عام پر آنے والے ہیں، جنہوں نے کرپشن کی ہوئی ہے، وہ ڈرے ہوئے ہیں اور ’’بیمار‘‘ بن کر بیرون ملک علاج کے بہانے ڈھونڈ رہے ہیں۔ مبینہ ’’بیمار سیاست دانوں‘‘ میں سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی بھی شامل ہیں۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ نیب کو آنے والے دنوں میں بطور ملزم اُن کی ضرورت پڑ سکتی ہے، اس لئے سید یوسف رضا گیلانی ’’بیمار‘‘ ہو گئے ہیں۔ بیماری بھی ایسی ہے کہ علاج یہاں پاکستان میں ممکن نہیں۔

حیرانی ہوتی ہے کہ ہمارے مسیحا جن کی خاصی بڑی تعداد امریکہ اور یورپ سے سند یافتہ ہے، کیوں اپنے ’’مریضوں‘‘ کا علاج نہیں کر سکتی؟پاکستانی ڈاکٹر یا ہسپتال ان وی آئی پیز کو علاج کی وہ سہولتیں کیوں نہیں دے سکتے، جو بیرون ملک کسی بھی مریض کو حاصل ہیں۔ کیا پاکستانی ڈاکٹر علاج کرنے کے اہل نہیں؟سیدیوسف رضا گیلانی کے بعد اور کون کون باہر جانے کے لئے پَر تول رہا ہے۔ نیب کو اُن سب پر نظر رکھنا ہو گی جن کے نام نیب کی تحقیقات میں زیر غور یا زیرِ گردش ہیں، وہ اچانک باہر چلے جاتے ہیں تو انہیں واپس لانا اور تفتیش میں شامل کرنا زیادہ مشکل ہو گا، کیونکہ پروسیس اتنا آسان نہیں، بہت لمبا ہے، اُسے طے کرنے میں کافی عرصہ درکار ہو گا، اس لئے نیب کو اپنے مبینہ ملزمان پر ابھی سے اپنے سخت پنجے گاڑ دینے چاہئیں۔ کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ کوئی بھی بڑا آدمی، جس نے کرپشن کی ہے ’’نیب‘‘ سے بچ سکتاہے۔ عام آدمی ہو یا خاص ، سب کو احتساب کے عمل سے گزرنا ہو گا۔

مزید :

کالم -