آٹو کے بعد مثبت تجارتی پالیسی!
حکومت نے آٹو پالیسی کے بعد تین سالہ تجارتی پالیسی کا بھی اعلان کر دیا ہے، جس کے مطابق سرمایہ کاروں کو سہولتیں بہم پہنچائی جائیں گی کہ درآمدات اور برآمدات کا فرق مٹ سکے۔ یوں تجارتی پالیسی پر تفصیل سے روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے تاہم مختصراً یہ کہ برآمد کے بعد سب سے زیادہ توجہ زراعت پر دی گئی ہے یہ پالیسی اِس امر کی مظہر ہے کہ حکومت مُلک میں پیداواری ہدف بڑھانے کے لئے جدید زرعی طریقے اختیار کرنے کی حوصلہ افزائی کرے گی تاکہ فی ایکڑ پیداوار بھی زیادہ ہو اور پیداواری لاگت بھی کم ہو سکے، اِس سلسلے میں یہ پالیسی مرتب کی گئی ہے کہ حکومت نئی زرعی مشینری اور پلانٹس درآمد کرنے پر سو فیصد مارک اَپ سپورٹ دے گی اور بعض مخصوص علاقوں کے لئے سرمایہ کاری میں بھی50فیصد حصہ ڈالے گی۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت نے اور شعبوں کے ساتھ زرعی شعبے پر بھی توجہ مرکوز کرنے کا فیصلہ کیا ہے، ہمارے مُلک میں فروٹ کی پیداوار بڑھانے کے بے شمار مواقع ہیں اور اگر جدید مشینری درآمد ہو اور جدید پلانٹس آ جائیں تو یہ فروٹ زرمبادلہ کمانے کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے کہ فروٹ اور سبزیاں بھی پروسیس کر کے برآمد کی جا سکیں گی۔ یہ اچھا عمل ہے اس کی تعریف کرنا چاہئے تاہم یہ بھی ضروری ہے کہ اس سارے عمل کو صاف شفاف رکھا جائے اور بابو اور بیورو کریسی سے بچایا جائے کہ کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو، ہمیں تو چاول، گندم، مکئی اور گنے کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافے اور فصل کے تحفظ کے لئے جدید تحقیق اور جدید آلات و مشینری کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس سیب اور ترشادہ پھلوں کی بہتات ہے، جو بیرونی دُنیا میں پسند کئے جاتے ہیں،جبکہ چاول کی اعلیٰ اور برتر فصل بھی دُنیا میں نام پیدا کر چکی ہے۔پاکستان مختلف شعبوں میں امریکہ اور یورپ کے ساتھ تعاون اور تجارت تو پہلے ہی کر رہا ہے اب چین اور ایران کے ساتھ تجارت کی راہیں صاف کی جائیں گی اور دونوں دوست اور قریب ترین ممالک کے ساتھ تجارت میں اخراجات بھی کم ہوں گے اور تینوں ممالک ایک دوسرے کے تجربات سے بھی مستفید ہو سکیں گے، پالیسی طویل مشاورت کے بعد مرتب کی گئی اب اس پر عمل درآمد اس کی روح کے مطابق ہونا چاہئے۔اس سے پہلے جو آٹو پالیسی بنائی گئی اور جس کا اعلان کر دیا گیا اس پر بعض حلقوں کی طرف سے اعتراض کئے گئے جو ابھی تک تو اعتراض برائے اعتراض ہیں، اس پالیسی سے نہ صرف چھوٹی گاڑیاں سستی ہوں گی، بلکہ پرزہ جات کی قیمتوں میں بھی کمی آئے گی اور نئی گاڑیاں بھی سستی ہوں گی۔ یہ پالیسی سرمایہ کاری کا موقع بھی مہیا کرتی ہے کہ مُلک کے اندر مزید پلانٹ لگائے جائیں اور خود گاڑیاں تیار کی جائیں، اس چھوٹ سے جو پرزہ جات،آلات اور پلانٹس مینو فیکچرنگ کے شعبہ میں دی گئی ہے، مُلک کے اندر سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہو گی۔
