اسلام کا تابناک چہرہ سامنے لانے کی ضرورت
مفتی اعظم مصر ڈاکٹر شوقی ابراہیم عبدالکریم نے کہا ہے کہ دُنیا میں امن کے لئے دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن جدوجہد کرنا ہو گی، بے گناہ لوگوں کا قتل تمام مذاہب میں حرام ہے ہمیں انتہا پسندی کے خلاف اسلام کا روشن اور حقیقی چہرہ سامنے لانا ہو گا، اسلام امن و سلامتی کا دین ہے، دہشت گرد سوشل میڈیا کے ذریعے اپنا ایجنڈا پھیلانے کی سازشیں کر رہے ہیں جس کا تدارک ضروری ہے۔ میڈیا وار میں اسلام کے بارے میں غلط فہمی پھیلائی جا رہی ہے۔ اُن کا کہنا تھا اسلام کے نام پر کئی جھوٹی تنظیمیں بنائی گئی ہیں جن کا اسلام سے دور کا تعلق نہیں۔اسلام ایک بین الاقوامی دعوت کا نام ہے یہ امن و سلامتی کا نام لے کر دُنیا میں پھیلا، جس نے پہلی اور بعد والی تہذیبوں کو اپنے ساتھ شامل کیا، اچھی رسومات کو برقرار رکھا اور بُری رسومات کا خاتمہ کیا۔ حضور نب�ئ رحمتؐ کی بعثت کا مقصد انسانی کردار کو بہترین اور عمدہ ترین اخلاق والا بنانا تھا۔انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے مقابلے کے لئے مصر نے اپنے بیٹے قربان کئے اور کر رہا ہے۔انہوں نے اِن خیالات کا اظہار وزارتِ مذہبی امور کے زیر اہتمام ’’تعلیمات نبویؐ کی روشنی میں روا داری کا فروغ‘‘ کے موضوع پر منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کیا۔
چند دِنوں کے وقفے کے دوران عالم اسلام کی دو جیدّ شخصیات پاکستان میں خطاب کر چکی ہیں اور انہوں نے اپنے علم و فضل سے پاکستان کے عوام کو متاثر کیا ہے اِس سے پہلے امام کعبہ الشیخ صالح بن محمد آل طالب پاکستان تشریف لائے تھے جہاں انہوں نے اہل حدیث کانفرنس سے خطاب کیا اور مختلف شہروں کی مساجد میں نمازوں کی امامت کی اور عوام الناس کو اسلام کی روشن تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کی۔ اب مفتی اعظم مصر نے اپنے عالمانہ خطاب میں پاکستانی مسلمانوں سے کہا ہے کہ وہ دُنیا کے سامنے اسلام کا روشن چہرہ پیش کریں، اسلام امن و سلامتی کا دین ہے اور جو افراد اور تنظیمیں جدید دور کے میڈیا کو استعمال کر کے تصورِ اسلام کو مسخ کر رہی ہیں اُن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، دہشت گردی پوری دُنیا میں پھیلی ہوئی ہے اور مسلمانی کے دعویدار جو لوگ دُنیا میں اسلام کے نام پر خون بہا رہے ہیں وہ اسلام کے نمائندے ہیں اور نہ مسلمانوں کے،لیکن اُن کی وجہ سے اسلام اور مسلمان بدنام ضرور ہو رہے ہیں، اِس لئے ایسی تنظیموں اور افراد کو بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے۔
دُنیا کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسلام کا نام لینے والی بعض تنظیموں نے مسلمان ممالک کو غیر مسلموں سے بھی زیادہ نقصان پہنچایا ہے انہی کی وجہ سے مشرق وسطیٰ کے کئی ملک تباہ و برباد ہو گئے اور اِن ممالک میں تہذیب و تمدن کی قدیم علامتیں بھی مٹ گئیں، عراق اور شام میں داعش نے شہروں کے شہر کھنڈرات کا ڈھیر بنا دیئے، لاکھوں لوگ اُن کی سفاکیت کی بھینٹ چڑھ گئے۔ان کی سرگرمیاں شام و عراق تک محدود نہیں،اب وہ افغانستان میں بھی آگ اور خون کا کھیل کھیل رہی ہیں اور مقدس مقامات کے ساتھ ساتھ ہسپتال اور تعلیمی ادارے بھی اُن کی دہشت گردی سے بچے ہوئے نہیں ہیں۔
پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے قیمتی جانوں کی قربانی دے کر اپنی سرزمین سے دہشت گردوں کا صفایا کر دیا ہے،جنہوں نے یہاں بھی اپنے قدم جمانے کی ناکام کوشش کی تھی، ابتدائی کامیابیوں کے بعد اُن کے قدم اُکھڑ گئے اور اب ایسی تنظیموں کے افراد یا تو روپوش ہیں یا اُن کے بچے کھچے عناصر افغانستان میں اپنے ٹھکانے بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔اگر افغان حکومت اِس سلسلے میں پاکستان کے ساتھ بھرپور تعاون کرے تو دونوں ممالک اُن کا کامیابی سے صفایا کر سکتے ہیں۔ پاکستانی حکام نے اِس سلسلے میں افغانستان سے رابطہ کر رکھا ہے اور حال ہی میں پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل(ر) ناصر جنجوعہ نے افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کر کے اُنہیں بعض ایسی تجاویز دی ہیں، جن پر اگر صدق دلی سے عمل ہو جائے تو دونوں ممالک کے حق میں بہت مفید ہو سکتا ہے اور دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے میں بڑی مدد مل سکتی ہے۔
سیکیورٹی اقدامات کے ساتھ ساتھ پاکستان علمی اور ثقافتی سطح پر بھی دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے،پیغام پاکستان کی امام کعبہ اور مفتی اعظم مصر کی جانب سے تائید بڑی کامیابی ہے۔ مفتی صاحب نے تو یہ بھی کہا ہے کہ وہ پیغام پاکستان کا عربی زبان میں ترجمہ کرائیں گے اور اسے مصر میں وسیع پیمانے پر تقسیم کیا جائے گا تاکہ مصری عوام اِس ضمن میں پاکستانی علماء کے موقف اور کردار سے بخوبی واقف ہو سکیں۔مصر اور سعودی عرب بھی دہشت گردی کا شکار ہیں اور موخر الذکر نے اس کے مقابلے کے لئے عالم اسلام کا مشترکہ فوجی اتحاد بھی بنایا ہے، جس کا بنیادی مقصد ان قوتوں کا مقابلہ ہی ہے،جنہوں نے دہشت گردی کے لئے جدید ترین ہتھیار بھی حاصل کر لئے ہیں اور باقاعدہ فوجی تربیت لے کر دہشت گردی کو ایک قسم کی جنگ کی شکل دے دی ہے،اِس لئے ناکافی ہتھیاروں اور محدود تربیت کے ساتھ ایسے گروہوں کا مقابلہ کرنا مشکل ہے اِس لئے سعودی حکومت نے باقاعدہ فوجی اتحاد کی داغ بیل ڈالی ہے، جس کی کمان جنرل راحیل شریف کو سونپی گئی ہے، جنہوں پاکستان سے دہشت گردی کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔
دہشت گردی کے خلاف پاکستان نے جو کردار ادا کیا ہے عمومی طور پر اُسے دُنیا بھر میں سراہا گیا ہے،کیونکہ شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو گا جس نے اتنے طویل عرصے تک اِس عفریت کو بھگتا اور اس کا مقابلہ کیا ہو۔دُنیا میں جن جن ممالک میں دہشت گردی ہوئی وہ اِکا دُکا یا چند واقعات تک محدود رہی، انہوں نے فوری طور پر ہر سطح پر ایسے اقدامات کر لئے جن کی وجہ سے ایسے واقعات پر قابو پانا ممکن ہو گیا،لیکن پاکستان کو عشروں تک اس کا مقابلہ کرنا پڑا، تب کہیں جا کر اُسے سکھ کا سانس نصیب ہوا، اب بھی پاکستان میں کبھی کبھار دہشت گردی کے واقعات ہو جاتے ہیں۔ خصوصاً بلوچستان میں پولیس کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے، کیونکہ جس خطے میں پاکستان واقع ہے دہشت گردوں کے گروہ اور تنظیمیں اس جگہ زیادہ سرگرم عمل ہیں۔ امریکہ نے جہاں جہاں دہشت گردی کے خلاف جنگ چھیڑی اس کا آغاز زیادہ تر ہوائی حملوں سے ہوا، دہشت گرد جوابی ہوائی حملے تو نہیں کر سکتے تھے،اِس لئے انہوں نے امریکہ کا ساتھ دینے والے ممالک کو نشانہ بنانا آسان سمجھا،چنانچہ اُنہیں اپنا ہدف بنا لیا،لیکن بدقسمتی یہ ہوئی کہ پاکستان نے جس ملک کے لئے یہ طویل جنگ لڑی وہ ابھی تک اس کے کردار سے مطمئن نہیں اور اب تو صدر ٹرمپ نے کھلم کھلا پاکستان کی مخالفت شروع کر رکھی ہے، کولیشن سپورٹ فنڈ بھی روک دیئے ہیں یا اُن کی ریلیز پر کڑی شرائط عائد کر دی ہیں،حالانکہ امریکہ کے اندر ایسے جرنیل اور دانشور موجود ہیں جو اب بھی پاکستان کے کردار کے معترف ہیں۔
برطانوی وزیر داخلہ امبروڑ نے لندن میں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے ملاقات کے دوران دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے کردار کو سراہا۔انہوں نے دہشت گردی کے مقابلے کے لئے سیف سٹی پراجیکٹ کو بھی قابلِ تحسین قرار دیا ہے،ضرورت اِس بات کی ہے کہ پوری دُنیا دہشت گردی کے خلاف متحدہ کردار ادا کرے،چونکہ یہ پوری دُنیا کا مسئلہ ہے اور کوئی ایک ملک اگر دہشت گردی پر قابو پا بھی لیتا ہے تو یہ بڑی آسانی سے دوسرے خطوں میں منتقل ہو جاتی ہے،تجربہ یہی بتاتا ہے کہ جہاں جہاں سے دہشت گردوں کو نکالا گیا وہاں سے نکل کر انہوں نے دوسرے علاقوں میں کمین گاہیں بنا لیں اِس لئے مربوط اور متحدہ کوششوں کے ساتھ اس پر قابو پانا ممکن ہے۔