تیرا کیا بنے گا۔۔۔؟

تیرا کیا بنے گا۔۔۔؟
تیرا کیا بنے گا۔۔۔؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) ہی آئندہ انتخابات کا سب سے بڑا موضوع ہے۔ اسے توڑ دیا جائے گا حصے بخرے کردئیے جائیں گے اس کے کچھ گھوڑے مخالف پارٹیوں میں بھیج دئیے جائیں گے اور کچھ قابل اعتبار اور بہترین گھوڑے اپنے اصطبل میں رکھ لئے جائیں گے۔ پیپلز پارٹی کوجنوبی پنجاب کے رستے داخلہ دیا جا رہا ہے اور وہاں اسے اس کی حیثیت سے کچھ بڑھ کر گھوڑے فراہم کئے جائیں گے۔

عمران خان کو وسطی پنجاب میں کچھ گھوڑے دے دئیے گئے چند مزید بھی دئیے جائیں گے، حالانکہ اب عمران خان ناکوں ناک آئے ہوئے ہیں مزید گھوڑوں کی گنجائش عرصہ ہوا ختم ہوچکی۔ مسلم لیگ(ن) کے اندر سے زیادہ سے زیادہ اسپ تازی (کامیاب بازی لگانے والے گھوڑے) کو زیادہ سے زیادہ نکالا جارہا ہے۔


ورکنگ پیپر کے مطابق پیپلز پارٹی اگر سندھ سے 2013ء کے نتائج حاصل کرلے۔ پنجاب سے 10سے 12 نشستیں مزید دلوائی جائیں۔ خیبرپختونخوا میں ایک دو نشستیں مل جائیں۔ بلوچستان سے بھی دو تین نشستیں ملنے کا امکان ہو سکتا ہے۔


بلوچستان سے اپنے ہاتھ کے آزاد گھوڑوں کو زیادہ موقع دیا جائے گا۔ پنجاب میں آزاد پہلے سے کہیں زیادہ ہوں گے اور فاٹا والوں کا اضافہ۔سندھ سے فنکشنل تو پہلے ہی جیب کی گھڑی ہے۔ وہاں سے بھی کچھ آزاد جتوائے جاسکتے ہیں۔ پنجاب میں چونکہ آزاد کی تعداد بڑھائی جارہی ہے اور پیپلز پارٹی کو زائد از جْثّہ حصہ دیا جارہا ہے۔

اس لئے تحریک انصاف کو اس کا ازالہ کراچی میں کرانے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ ہر کسی کو نئے تیار کردہ سانچوں کے مطابق پھیلاؤ کی اجازت ہوگی۔ مسلم لیگ(ن) کا سانچا خاصا تجوید کیا گیا ہے۔ تاہم انتخابی نتائج میں عام لوگوں کو پھر سے مسلم لیگ (ن) کے نمبر ز زیادہ نظر آسکتے ہیں۔


ذہن پر بہت زیادہ زور دینے کی ضرورت ہے نہ حساب کتاب کی۔ سینیٹ کے انتخابات کا ماڈل سب کے سمجھنے کے لئے کافی ہے۔ فرق یہ ہو گا کہ سینیٹ گیم میں شامل جماعتیں اب لیڈر آف اپوزیشن کی دوڑ میں ہیں آئندہ قومی اسمبلی میں یہی کوشش مسلم لیگ(ن) کررہی ہوگی۔


پیش کردہ خاکہ انتخابات کے بروقت ہونے کے امکان کو مدنظر رکھ کر کھینچا گیا ہے۔ ابھی تو عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔ مئی تک موجودہ حکومت ہی بظاہر حکومت کرے گی۔ اس کے بعد کے منظر نامے کے لئے پسِ پردہ کئی طرح کی ریہرسل ہورہی ہیں۔


کچھ ریہرسل ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے جب کہ بہت کچھ نظروں سے اوجھل، لیکن اوپن سیکرٹ ہے مخالف کیمپ یعنی مسلم لیگ (ن) سے جو بھی ’’ہیرو‘‘ بننے کی کوشش کرے گا نیب کا شکنجہ تیار ہے۔

’’مقتدریہ‘‘ کے اقدامات، احکامات کی عدولی کرنے والا معتوب ٹھہرے گا۔ اس کی قسمت خراب۔ ہر حکم اس کے مخالف ہوگا۔ ’’فتوئیے‘‘ اس کی ایسی دھلائی کریں گے کہ اس کی نسلیں یاد رکھیں گی۔

وہ منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گا اور’’مطعون پٹواری‘‘ کہلائے گا۔ اس کی اگلی پچھلی سب نسلوں کے لئے ایسی ایسی ہجو لکھی اور پڑھی جائے گی کہ آس پاس والوں کے لئے نشانِ عبرت ہوگا۔


کوئی سر اْٹھا کر نہ چلے۔ اور کوئی ایسا بھی نہ ہو جو اِن جیسوں پر چار حرف نہ بھیجے۔ سب پر لازم ہے اور جو یہ کام نہیں کرے گا وہ اپنا انجام یاد رکھے۔ شاید ایسے بھلے مانسوں کو اپنی یہ ’’عزت افزائی‘‘کچھ زیادہ ہی محسوس ہو، کیونکہ وہ خود کو اس کا حقدار ہرگز نہیں سمجھتا ہوگا۔

اس کے ہاں احساسِ ندامت بھی شدید ہوگا لہٰذا وہ یہ سوچ کر رجوع کرلے گا کہ بس ٹھیک ہے۔ اپنی عزت بچاؤ اور جمہوری روایات کے مدعیوں کے لئے بھی عزت کی کوئی جگہ نہیں۔ خاطر جمع رکھئے! چھپ چھپا کر ٹویٹ کرنے والوں سے نمٹنے کا بھی انتظام موجود ہے۔

’’کرنے والے‘‘ ہاؤس آف شریف اور ان کے وفاداروں کو ’’اوقات میں لانا‘‘ چاہتے ہیں اور ڈٹے رہنے والے اسے ’’جدوجہد‘‘ قرار دے رہے ہیں جو طویل ہوتی نظر آرہی ہے، لیکن اس امید کے ساتھ کہ ہر ’’جہد‘‘ کا حصول،بلکہ وصول ہوتا ہے۔ وصولی دیر بعد سہی، ہوجائے گی۔ اس لئے چاروناچار سہہ لیا جائے۔ آج نہیں تو کل اس کا ’’پھل‘‘ ضرور ملے گا۔۔۔ یہ ہے زیرعتاب کیمپ کی سوچ۔


اور۔۔۔ جو ریہرسل ہوتی نظر نہیں آرہی بلکہ محسوس کی جاسکتی ہے وہ ہے۔ نگران سیٹ اَپ پر کام، جو بہت ہی سمجھ دار ہیں، وہ کہہ رہے ہیں کہ گیم اب پیپلز پارٹی کے ہاتھ میں ہے۔

وہ اگر چاہے گی تو نگران سیٹ اَپ وقت پر تشکیل پاجائے گا اور اگر نہ چاہے تو معاملہ لٹک جائے گا، یعنی پھر یہ گیند الیکشن کمیشن کے کورٹ میں ہو گی، لیکن اس میں بھی پیپلز پارٹی اگر جمہوری قوتوں کا ساتھ دے گی تو، یعنی نگران سیٹ اپ کے لئے انتہائی ’’محفوظ‘‘ اور مناسب ناموں پر اتفاق کرلے گی تو شاید بیل منڈھے چڑھ جائے۔

ہاں اگر معاملات حکومت اور اپوزیشن کے درمیان طے نہیں پائے تو الیکشن کمیشن کو دونوں طرف سے تین تین نام بھیجے جائیں گے۔ اب الیکشن کمیشن کی صوابدید ہوگی کہ وہ کس کے سر پر تاج رکھے۔ چیف الیکشن کمشنر پر پیشگی کام شروع کردیا گیا ہے۔ انہیں نواز شریف کا بندہ قرار دیا جانے لگا ہے، جس کا مقصد انہیں بیک فٹ پر لانا ہوسکتاہے۔


دباؤ کا حربہ کامیاب ہونے کی صورت میں نگران وزیراعظم بھی پھر ’’انہی‘‘ کا ہی ہوگا۔ دوسرا اہم آپشن وطن عزیز میں ایمرجنسی لگانے کا بھی ہے۔ اور یہ کام کسی غیر عسکری قوت سے ہی کرایا جائے گا۔ اگر یہ منصوبہ کامیاب ہو سکا تو پھر ہر حق، ہر فرض معطل ہو گا۔

سی پیک ہی سب سے بڑی ترجیح قرار دے دی جائے گی اور دوسر ی ترجیح احتساب۔۔۔ لیکن احتساب کا انداز بدلے گا نہ نشانہ۔۔۔نگران سیٹ اپ خوش اسلوبی سے طے پاجائے تب کریڈٹ پیپلز پارٹی کا۔ نہ پائے۔۔۔ پھر بھی رعایات اور ’’انعامات‘‘ کی بارش ہوگی پیپلز پارٹی پر۔۔۔ ایمرجنسی ہوگی تو۔۔۔ سب سے بڑا نقصان وطن عزیز کے بعد تیسری بڑی سیاسی جماعت تحریک انصاف کا ہوگا۔

اب آئیے ورکنگ پیپر کے پہلے منصوبے کی طرف۔ اگر انتخابات (کنٹرولڈ) ہوگئے تو پھر فلم وہی چلے گی، جس کا ٹریلر چیئرمین سینیٹ کے انتخابات کی صورت میں پوری قوم نے دیکھا۔ قرعہ ’’آزاد استر‘‘ کے حق میں نکلے گا (’’استر‘‘ ایک خاص قسم کے گھوڑے کو کہتے ہیں)۔

سب کو اس کی اطاعت کا حکم ملے گا۔ ’’ استر‘‘ حکمران کہلائے گا اور وہ ملک کے وسیع تر مفاد کا محافظ ہوگا۔ وہ سب کرے گا جو وطن عزیز کے لئے ’’مفید‘‘ ہو گا۔ وہ نہیں کرے گا جو ’’مضر‘‘ ہو گا۔ آخر وطن عزیز کو اقوام عالم میں مقام بھی تو دلوانا ہے۔

اغیار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑے ہونا ہے۔ فیصلے عوامی نہیں ہوتے ’’خواصی‘‘ ہوتے ہیں اور ’’استر‘‘ اسی حلف پر دل وجان سے عمل پیرا ہوگا۔

وطن عزیز کی جغرافیائی معروضی حیثیت متقاضی ہے کہ فیصلے وہ ہوں جو جہاندیدہ اوصاف کے حامل اول وآخر محب وطن افراد کریں اور اس کام کے لئے ’’استر‘‘ کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔

اس منصوبے کی تکمیل کی صورت میں اگر آج کوئی تبصرہ کرے تو کیا کہے گا۔ یہی کہ مسلم لیگ (ن) معتوب ومظلوم بن جائے گی۔ پیپلز پارٹی اپنی پہلے پوزیشن سے کہیں آگے آکر شاٹس کھیلے گی۔۔۔ اور جمہوریت کی کشتی کو طوفانوں سے بچالانے کا کریڈٹ لے رہی ہوگی۔ بلااور بالواسطہ اقتدار کے مزے بھی۔


لیکن آج کا مبصر یہ ضرور کہہ رہا ہے ’’تیرا کیا بنے گا۔۔۔؟۔۔۔ عمران خان!۔ کپتان کو کیا ملے گا۔؟ کیا ان میں اتنا حوصلہ ہوگا کہ وہ سینیٹ کے ٹریلر والی پوری فلم بیٹھ کر دیکھ سکیں؟ اور اس فلم میں ’’ایکسٹرا‘‘ کا کردار ادا کریں؟ یہ اس وقت سیاست میں بڑا سوال ہے۔

باقی تو کوئی سوال ہی نہیں رہا۔ تمام سوالوں کے جواب سامنے ہیں۔ پرچہ حل ہے،جن کا امتحان ہے وہ بھگتیں۔ باقی سب کے سب خوش، لیکن عمران خان کیا کرے؟؟؟

مزید :

رائے -کالم -