رئیل اسٹیٹ سیکٹر پر نیب کے سائے!

قومی احتساب بیورو کیسے بنا کس نے بنایا، اچانک اس کے فعال ہونے پر بات نہیں کرنی۔ البتہ تازہ ترین NAB کے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے تشہیری مہم اس کے اقدامات کی چغلی ضرور کھانی ہے۔NAB کی کارکردگی، طریقہ کار پر ذاتی طور پر مجھے اعتراض نہیں عملی طور پر اب تک کے اقدامات پر ضرور سوال اٹھ رہے ہیں۔NAB کی پلی بار گینگ پالیسی سے مجھے پہلے دن سے اختلاف ہے۔پلی بارگینگ کا قانون احتساب سے بذات خود مذاق ہے۔ پلی بارگینگ کے تجربات کی وجہ سے احتساب کا نظام موثر ہونے کی بجائے جگہ ہنسائی کا باعث بن رہا ہے۔ مارچ کے پہلے ہفتے میں لاہور میں بالعموم اور ملک بھر میں بالخصوص قومی احتساب بیورو نے عوام الناس کے لئے آگاہی مہم چلائی جس میں NAB کا مقبول عام نعرہ ’’احتساب سب کا‘‘ ملک بھر کے شہروں کے در و دیوار پر نظر آیا، نعروں کے فلیکس اور پوسٹر عوام کو آگاہ کرنے اور یہ تاثر دینے کے لئے لگائے گئے تھے کہ قومی احتساب بیورو بلا تفریق اور بلا تفریط احتساب کرتا ہے۔ یعنی کسی مخصوص گروہ، جماعت یا آرگنائزیشن کے خلاف نہیں،بلکہ ملک کے طول وعرض میں ہر جگہ ہر مقام جہاں بھی کرپشن ہو اس کا قلع قمع کرنے کے لئے NAB حرکت میں آتا ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ سال سے جو NAB کے اقدامات ہیں وہ NABکے مقبول عام نعرے احتساب سب کے لئے پر پورا نہیں اتر رہے۔ اس کی وجہ یا دلائل اس طرح دیئے جا سکتے ہیں۔ پاناما لیکس میں 400سے زائد افراد کے نام آئے جن میں سیاست دان بیورو کریٹ دیگر شعبوں سے وابستہ افراد شامل تھے۔ڈیڑھ سال سے NAB نے احتساب کا کوڑا اٹھایا ہے وہ محسوس ہوتا ہے مخصوص افراد تک محدود ہے اس سے زیادہ صرف یہی کہا جا سکتا ہے ٹارگٹ کئے جانے والے سیاسی گروہ کی طرف سے دیگر افراد کی نشاندہی کرنے کے بعد اپوزیشن کے دو تین افرادکو اس نٹ میں لایا گیا ہے۔ عملی طور پر ایک جماعت اور اس کے چند افراد سے بات آگے نہیں بڑھ سکی۔
ایک بات پر اتفاق کیا جا سکتا ہے۔ 2013ء میں مسلم لیگ (ن) کی طرف سے اقتدار سنبھالنے کے بعد اس میں دو سال تک مسلسل بہتری آتی رہی اور مہنگائی جو جان لیوا ہو چکی تھی اس میں کمی دیکھنے کو ملی۔ ملکی ذخائر بڑھے، برآمدات میں اضافہ ہوا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا مسلم لیگ (ن) کی حکومت دیرپا اقدامات کر جائے گی۔ معیشت مضبوط کر دے گی۔ بڑی وجہ سی پیک بھی بنا۔2015ء تک خوب ڈھنڈورا پیٹا گیا عوام خوش تھے۔ 2016ء کے بعد ریورس گیر لگنا شروع ہو گیا۔ کسی بھی ملک کی مضبوطی خوشحالی میں رئیل اسٹیٹ سیکٹر کا ہمیشہ نمایاں کردار رہا ہے۔ مئی 2016ء تک ہماری حکومت بھی یہ تسلیم کرتی رہی۔آئی ایم ایف بھی اعتراف کرتا رہا۔ یکم جولائی 2016ء کو حکومت کی طرف سے رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو اعتماد میں لئے بغیر کئے گئے فیصلوں نے رئیل اسٹیٹ سیکٹر سمیت ملکی معیشت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ 2017ء میں پاناما لیکس بھی ہماری معیشت کی تباہی کا اہم کردار رہی ہیں۔ چاروں اطراف سے خوف کے سائے افراد سے نکل کر اوروں تک پھیل گئے اور ڈالر کی اڑان کنٹرول سے باہر ہوتی چلی گئی۔ اب ذخائر بھی چند ہفتوں کے ہیں۔ آئی ایم ایف بھی پھن پھلائے موجود ہے ایسا لگ رہا ہے ملکی معیشت کی کشتی گہرے سمندر میں لاوارث ہچکولے کھا رہی ہے۔
رئیل اسٹیٹ سیکٹر جس سے ماہانہ اربوں روپے کا ریونیو آ رہا تھا وہ سکڑتا سکڑتا خطرے کی گھنٹی بجا رہا ہے۔ رہی سہی کسر NAB نے رئیل اسٹیٹ سیکٹر سے وابستہ افراد پر چڑھائی کرکے پوری کر دی ہے۔ یقیناً ہاؤسنگ سیکٹر میں بے شمار غلطیاں ہوں گی۔ مگر اس کو سنوارنے کا جو طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے وہ کسی صورت درست نہیں ہے۔ ہاؤسنگ سوسائٹی کچھ کچھ کردار غریب عوام کو چھت کی فراہمی میں ادا کر رہی تھیں جیسے تیسے سارا عمل جاری تھا۔ حکومت کو ریونیو بھی مل رہا تھا۔ دوسرا عوامی شکایات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے صوبائی حکومت نے نئے قوانین وضع کر دیئے تھے جس سے ہاؤسنگ سیکٹر رئیل اسٹیٹ سیکٹرز کو مشکلات ضرور تھیں، مگر مضبوط قواعد پر مبنی نیٹ ورک ترتیب پا رہا تھا۔ رئیل اسٹیٹ سیکٹر ڈویلپرز بلڈر اپنی غلطیوں پر قابو پا رہے تھے۔ا چانک NABلاہور کی طرف سے کھلی کچہریوں نے خوف کی فضا قائم کر دی ہے۔
10فیصد شکایات کا ازالہ کرتے کرتے NAB نے 90فیصد درست کاموں کو بھی کرنٹ لگا دیا۔ ملک اور بیرون ملک میں بیٹھے لاکھوں افراد کی کروڑوں اربوں روپے کی انوسٹمنٹ داؤ پر لگا دی ہے۔ لاکھوں افراد کے اپنی چھت بنانے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو پا رہا اس کے لئے لاہور سمیت اسلام آباد اور دیگر درجنوں سوسائٹیوں کے خلاف NAB کے ایکشن ہیں جس کی وجہ سے رئیل اسٹیٹ سیکٹر خوف کا شکار ہو کر رہ گیا ہے۔ کرپشن ختم ہونی چاہیے اس میں کسی کو اختلاف نہیں ہے۔ ہاؤسنگ سیکٹر سے وابستہ لاکھوں خاندان ہاؤسنگ سیکٹر سے وابستہ ہزاروں لوگ اور بلڈر اور ڈویلپرز کسی کو اعتراض نہیں ہے۔ اختلاف ہے تو طریقہ کار پر NAB کی عارضی طور پر واہ واہ تو ہو جائے گی مگر ان کے خوف کی وجہ سے ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں ترقیاتی کام رک گئے ہیں۔ مالکان فرار کے راستے ڈھونڈ رہے ہیں۔
احتساب کے ماحول کو فرینڈلی پلی بارگینگ کے ذریعے نہ بنایاجائے، بلکہ کرپشن کے ناسور کو مستقل بنیادوں پر جڑ سے اکھاڑے اور معاشرے کو پاکیزہ بنانے کے لئے لائحہ عمل تشکیل دیا جائے، ورنہ ملکی معیشت پہلے ہی تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہے اگر یہ رویہ جاری رہا تو ملک دیوالیہ ہو جائے گا۔ چیئرمین NAB اس پر نوٹس لیں اور سرجوڑ کر بیٹھیں اور اپنے ہی دیئے گئے نعروں پر عمل درآمد یقینی بنائیں۔ خوف، خبریں، افواہیں نہیں ہونا چاہیے۔ ملکی مضبوطی کے لئے یادگار اقدامات کی منصوبہ بندی ہونا چاہیے، جس سے ملکی معیشت کا پہیہ رکنے کی بجائے چلتا رہے۔