فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر387

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر387
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر387

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

قد کاٹھ میں حامد حسن اپنے والد سے کم تھے مگر حلیہ بالکل وہی تھا۔ ایک فرق یہ تھا کہ ابا جان خاموشی کا روزہ رکھ کر بیٹھتے تھے مگر حامد حسن خاصے باتونی تھے۔ وہ جنگ کے زمانے میں برما کے جنگلات میں فوجی ڈیوٹی دے چکے تھے۔ ان کا بیان تھا کہ ایک بار وہ جنگل میں بھٹک کر جنگلی قبائل میں پہنچ گئے تھے۔ ان جنگلیوں کے رہن سہن اور رسم و رواج کا وہ بہت دلکش اور رنگین مگر انوکھا نقشہ کھینچتے تھے۔ سردار کس طرح درجنوں بیویاں رکھتے تھے اور عورتوں کو کس قدر آزادی حاصل تھی وغیرہ وغیرہ۔ کئی بار یوں محسوس ہوا جیسے کہ ڈاکٹر صاحب مبالغہ آرائی کر رہے ہیں ۔ان سے ہماری قدرے بے تکلّفی بھی ہو گئی تھی اس لئے کہ عمر میں زیادہ فرق نہ تھا۔ ہم سے وہ بہرحال پندرہ‘ بیس سال بڑے تھے۔ وہ گفتگو میں بڑے زوردار الفاظ استعمال کرتے تھے اور دعوے بھی خوب کرتے تھے۔

یوٹیوب چینل سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’بس جی! ایک پڑیا میں بیس سال کا مرض اُڑا کر رکھ دیا میں نے۔ ایک کے بعد دوسری پڑیا کھانے کی نوبت ہی نہیں آئی۔‘‘
ایک بار ایک سادہ لوح مریض یہ سن کر پوچھ بیٹھا ’’ڈاکٹر صاحب! کیا مریض اللہ کو پیارا ہو گیا تھا؟‘‘ 
انہوں نے اسے گھورا اور بولے ’’کس قدر علم کی کمی ہے۔ ارے وہ تندرست ہو گیا تھا بالکل بھلا چنگا۔‘‘

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر386 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ڈاکٹر حامد حسن دوائی کی قیمت اپنے والد کے مقابلے میں زیادہ وصول کرتے تھے۔ کمپاؤنڈر ان کا بھی وہی تھا مگر حقّہ بردار بزرگ غائب تھے۔ انہوں نے بھی کچھ مریضوں کے کامیابی سے علاج کئے مگر ان کی خودستائی سے ہم عاجز تھے۔ گورنر ہاؤس سے ان کا بلاوا بھی آ جاتا تھا اور اس کا عموماً تذکرہ کرتے رہتے تھے حالانکہ ان کے والد نے کبھی اس بارے میں اشارہ تک نہیں کیا تھا۔ حامد حسن کا کہنا تھا کہ وہ خاندانی حکیم بھی ہیں اور ان کے جدّامجد راجاؤں‘ نوابوں کا علاج کرتے تھے اور ایک ہی خوراک میں ’’مرض کو اڑا کر رکھ دیتے تھے۔‘‘ یہ ان کا تکیہ کلام تھا۔
ہمارے والد آکا میاں کو بھی آخری دنوں میں ہم نے ڈاکٹر صاحب کو دکھایا تھا اور ایک بار ان کے وعدہ کرنے کے باوجود انہیں دیکھنے کیلئے نہ آنے سے بدمزگی بھی پیدا ہو گئی تھی۔ آکا میاں کا مرض علاج کی حد سے آگے گزر چکا تھا مگر تکلیف کی شدّت تھی۔ وہ گھبرا کر مختلف معالجوں اور ڈاکٹروں سے رجوع کرنے کیلئے کہا کرتے تھے اور ہم لوگ ان کا دل رکھنے کی خاطر حکم کی تعمیل میں پس و پیش نہیں کرتے تھے حالانکہ جانتے تھے کہ مرض لا دوا ہو چکا ہے۔
ان کی فرمائش پر ایک بار ڈاکٹر حامد حسن صاحب بھی ہمارے گھر تشریف لائے۔ آکا میاں کو بہت تسلّی دلاسے دیتے۔ مختلف واقعات بھی سناتے کہ کس طرح ایک پڑیا سے انہوں نے مرض کو اُڑا کر رکھ دیا تھا۔
آکا میاں ان سے بہت متاثّر ہوئے۔ شام کو ہم دوائی لے کر آئے تو انہوں نے کہا ’’بھئی تمہارا یہ ڈاکٹر تو کافی سمجھدار لگتا ہے۔ اب کچھ دن اس کا علاج کریں گے۔‘‘ 
دو دن بعد تکلیف بڑھ گئی۔ آکا میاں کا اصرار تھا کہ ڈاکٹر صاحب کو بلاؤ تاکہ وہ دیکھ کر دوائی تبدیل کریں۔ ہم نے کہا بھی کہ ہومیوپیتھک ڈاکٹر کو صرف مریض کا حال بتا دینا ہی کافی ہے مگر وہ مُصر تھے کہ ڈاکٹر صاحب کو بلاؤ۔
ہم نے ڈاکٹر صاحب کو فون کر کے درخواست کی کہ وہ کلینک جاتے ہوئے اِدھر سے گزرتے جائیں مگر ڈاکٹر صاحب نہ آئے۔ شام کو پھر ان سے درخواست کی کہ رات کو گھر جاتے ہوئے ہمارے گھر کی طرف سے نکلتے جائیں مگر ڈاکٹر صاحب نہ آئے۔
ہم رات کو گھر پہنچے تو آکا میاں تکلیف سے بے چین تھے۔ بار بار ڈاکٹر صاحب کا پوچھ رہے تھے اور ڈاکٹر صاحب لاپتہ تھے۔
ہمیں یاد ہے کہ وہ نیو ائیرنائٹ تھی۔ ہوٹلوں‘ کلبوں میں خوب رونق اور ہنگامے تھے مگر ہم سٹوڈیو سے سیدھے گھر آ گئے تھے۔ آکامیاں کی بیماری اور تکلیف کی وجہ سے ہم بہت پریشان اور اداس تھے۔ ڈاکٹر صاحب کی وعدہ خلافی کا سنا اور آکا میاں کی تکلیف کو دیکھا توہمیں بہت غصّہ آیا۔
اوپر اپنے کمرے میں جا کر ہم نے ڈاکٹر صاحب کے گھر کا فون نمبر ملایا۔ رات کے گیارہ بجے ہوں گے۔ سردی کڑاکے کی تھی اور ہر طرف دھند چھائی ہوئی تھی۔ اُس زمانے میں تو سردی کے مارے کھیتوں اور باغوں کے لان میں پانی بھی جم جاتا تھا۔
کافی دیر کے بعد کسی نے فون اٹھایا تو ہم نے ڈاکٹر صاحب سے بات کرانے کی درخواست کی۔ کافی پس و پیش کے بعد انہوں نے ڈاکٹر صاحب کو جگایا۔
’’ہیلو!‘‘
ہم نے اپنا نام بتایا۔ 
وہ پریشان ہو کر بولے ’’آفاقی صاحب ! اتنی رات گئے ٹیلی فون؟ خیریت تو ہے؟‘‘ 
ہم نے کہا ’’ڈاکٹر صاحب ! نہ آپ مسیحا ہیں نہ لاعلاج مرض کو ٹھیک کر سکتے ہیں۔ مگر کسی بیمار کا دل تو رکھ سکتے ہیں۔‘‘
’’کیوں ۔۔۔ کیا ہوا؟‘‘ 
’’آپ نے دوبارہ وعدہ کیا اور نہ آئے۔ آکا میاں آپ کے انتظار میں گھڑیاں گنتے رہے۔ اگر فیس درکار تھی تو وہ بھی بتا دیتے۔ ہمیں انکار نہ ہوتا۔ مگر ایک بوڑھے اور بیمار شخص کو اس طرح تکلیف اور عذاب میں مبتلا رکھنا تو کوئی مناسب بات نہیں ہے۔‘‘
ہم نے اور بھی بہت کچھ کہا۔ ڈاکٹر صاحب کافی تُنک مزاج تھے مگر چُپ چاپ سنتے رہے۔ پھر کہا ’’شرمندہ ہوں۔ میں صبح سویرے ہی پہنچوں گا۔‘‘
ہم نے کہا ’’شکریہ! بس رہنے دیجئے۔ یہ آپ بھی جانتے ہیں کہ آپ کی دوا سے فائدہ نہ ہوگا ۔اس لئے یہ احسان نہ ہی فرمائیں۔‘‘ ہم نے غصّے میں فون بند کر دیا۔ چند لمحے میں بزرگ اور مانے ہوئے معالج کی شان میں گستاخی کر دی ہے۔ ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔ ہم کافی شرمسار ہوئے۔ سوچا کہ کل ڈاکٹر صاحب کے پاس خود جا کر معذرت کریں گے۔
یکایک کوٹھی کے گیٹ پر کار کا ہارن چلاّنے لگا اور اس کے ساتھ ہی ہمارے کتّے جنگلی نے شور مچانا شروع کر دیا۔ ہم نے کمبل لپیٹا اور نیچے کی طرف چلے کہ اتنی رات گئے‘ ایسے موسم میں کون آ گیا۔
نیچے پہنچے تو ہمارے بھائی ڈاکٹر حامد کو لے کر آکا میاں کے کمرے میں پہنچ چکے تھے اور ڈاکٹر صاحب ان کی زبانی احوال سننے میں مصروف تھے۔ وہ حسب معمول لمبا اوورکوٹ اور قراقلی ٹوپی پہنے ہوئے تھے۔ اپنے والد کی طرح وہ اپنی داڑھی میں انگلیاں تو نہیں گھماتے تھے مگر داڑھی کو مٹھی میں لے لیا کرتے تھے۔ غور و فکر کرتے وقت وہ ایسا ضرور کرتے تھے۔ اس وقت بھی وہ یہی کر رہے تھے اور بہت غور سے آکامیاں سے بیماری کی تفصیل سن رہے تھے۔ ہم پیچھے ہی کھڑے ہو گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے ہماری بدتمیزی کے جواب میں جس بلند اخلاقی کا مظاہرہ کیا تھا اس کی وجہ سے ہم اور بھی زیادہ شرمندہ ہو گئے تھے۔
آکا میاں نے جب اپنی بیماری کی تفصیل بیان کر دی تو ڈاکٹر صاحب نے فرمایا ’’آپ بالکل پریشان نہ ہوں۔ درد تو آپ کا تھوڑی دیر میں ہی ختم ہو جائے گا۔ میں آپ کیلئے ایک دوائی لے کر آیا ہوں جو آپ کی تکلیف کو اُڑا کر رکھ دے گی‘‘۔
یہ کہہ کر انہوں نے چند پُڑیاں دے کر ضروری ہدایات دیں۔ آکا میاں نے انہیں بہت دعائیں دیں اور شکریہ ادا کیا۔ اماں نے پان کی ایک گلوری بنا کر ان کو بھجوائی۔ اتنی رات گئے مہمان کی اور کیا تواضع ہو سکتی تھی؟ ہمیں معلوم تھا کہ ڈاکٹر صاحب پان نہیں کھاتے مگر انہوں نے شکریہ ادا کر کے گلوری اٹھا کر اپنی جیب میں رکھ لی اور رخصت کی اجازت چاہی۔ ہم سامنے سے کھسک گئے۔ آگے کیا ہوا،اسکا ذکر ہم پہلی قسطوں میں کرچکے ہیں،مقصد اس واقعہ کو دہرانے کا یہ تھا کہ آپ کو بتایا جاسکے کہ کیسے کیسے لوگ ہوا کرتے تھے جو اپنی ذات میں انجمن ہوتے تھے۔(جاری ہے)

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر388 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں