پروفیسر خالد حمید کا قتل اور قوم میں بڑھتی وحشت
معاشرہ جس روش پہ چل رہا ہے اس مین بیمار ذہنوں کی پیداوار ایک لازمی امر ہے، انتہاپسندی اور عدم برداشت کے رویے زندگیوں ہی کے چراغ گُل نہیں کررہے بلکہ یہ عفریت انسانیت ،علم وآگہی ،ہمدردی اوریگانگت سمیت تمام اقدار کو نگلے جارہے ہیں۔ انتہا پسندی کے اندھیروں کی یلغار اور تشدد کی کالی آندھی اس زرو سے چل رہی کہ سب چراغ گل ہوتےجارہے ہیں۔
قتل غیرت کے نام پر ہو یا مذہب اور متنازعہ فکر کی بنیاد پر ؟اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہ ایسا گناہ ہے جہاں کے قانون میں خاص رعایت یا ہمدردی حاصل کرنے کی کافی گنجائش رکھی گئی ہے۔ اگر آپ اس بات سے انکاری ہیں توپاکستان کی 70 سالہ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے، چند ایک کے سواکتنے ایسے مقدمات ہیں جن میں قرار واقعی سزا دی گئی ہو اور مجرم کو کیفرِ کردار تک پہنچایا گیا ہو؟ میں نے اپنے کئی کالموں میں اس مسئلے کو اٹھایااور اس سوچ کو بدلنے کی بات اور کوشش کی لیکن نقارخانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے ؟؟؟
ہمارے گھروں اور گلیوں سے لے کر اداروں اور ایوانوں تک، رنجشیں ،کدورتیں، خود غرضی ،حسد اور عداوت پر مبنی رویے انفرادی سطح پر لوگوں کی شخصیت کو تباہی کے گڑھے میں دھکیل رہے ہیں اور اسی صورتحال میں ہمارے نوجوان کا کسی مذہبی انتہا پسند سوچ رکھنے والوں کے ہاتھوں کھلونا بن جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں اور اس کے نتائج ہم پروفیسرخالد حمید ،پروفیسر ڈاکٹروحید الرحمن یاسر رضوی ، پروفیسر ڈاکٹر شکیل اوج جیسے علم دوست شخصیات کے قتل کی صورت میں دیکھتے آئے ہیں۔
کچے اذہان کی آبیاری کے لئے ایسے بہت سے نام نہاد انتہا پسند سوچ رکھنے والے لوگ موجود ہیں جو عام فرد کی نفسیات سے کھیل رہے ہیں اور کسی کے سامنے اس لئے جواب دہ نہیں کہ ان کے نزدیک پانچ وقت خدا کے سامنے سجدہ ریز ہونا اور پیشانی پر نماز کی محراب سجالینا ہی اصل دین ِاسلام ہے ۔ ہم اپنے عمل میں کتنے مذہبی ہیں؟دین کے احکامات کی کتنی پابندی کرتے ہیں؟ اس حقیقت سے ہم بخوبی واقف ہیں لیکن مذہب کے نام پر اشتعال ہمیں خوب آتا ہے۔ آپ کسی پر بھی مذہب کی توہین کا الزام لگا دیجیے، لوگ اس پر ٹوٹ پڑیں گے اور جان لے کر چھوڑیں گے، کوئی تصدیق کرنے کی فکر نہیں کرے گا کہ یہ الزام درست ہے یا غلط؟ ہر ایک یہ سوچ کر حملہ آور ہوجائے گا کہ ثواب کمانے کا موقع ملا ہے لوٹ لو۔
میرا دینِ اسلام تو مکمل ضابطہ اخلاق ہے جو دین سے قطع نظر انسانیت کی بنیاد پرتحمل وبرداشت اور باہمی احترام کا درس دیتا ہے، یہ وہی دین کامل ہے جس کے نبی حضورﷺطائف والوں کے پتھر وں سے لہو لہان ہونے کے بعد بھی اللہ سے ان لوگوں کے لئے عذاب نہیں بلکہ ہدایت طلب کرتے ہیں۔عقل دنگ ہے کہ یہ کون لوگ ہیں جو خود کو دینِ اسلام کا پیروکار سمجھ کرکسی دوسرے مذہب اور فرقہ یا نظریہ کو بنیاد بنا کر قتل جیسے انتہائی فعل سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں بلکہ اس پرفخر کرتے ہیں۔ہم بحیثیت فرد اور من حیث القوم شدید الجھن کا شکار ہیں۔ ہم سب کے اندر کہیں نا کہیں ایک چھوٹا سا انتہا پسند موجود ہے جسے ہم مرنے نہیں دیتے ، ہم اپنے آپ سے جنگ کرنے کے لئے تیار نہیں تو کسی اور کا رویہ کیسے اور کیونکر تبدیل کرسکیں گے؟ یہ رویے افراد سے لے کر قوموں تک کی زندگی تباہ کرڈالتے ہیں ۔
پروفیسر خالد حمیدایک ذہین سلجھے ہوئے علم کے گرویدہ اور روشنی کے پرستار انسان تھے۔ایک ایسا شخص جسے علم سے محبت ہو ،جو روشنی کاداعی، پرستار اور ظلمت اور جہالت کا دشمن ہو وہ کیسے کسی کے نظریات کی مخالفت کرسکتا ہے جو مدِمقابل کے لئے ناقابلِ برداشت ہو ؟۔پروفیسر خالد حمیدکو وحشت اور درندگی کا ہدف بناتے ہوئے جو الزام لگایا گیااب اس کو ثابت کرنے اور قتل کا جواز درست ثابت کرنے کے لئے بااثر افراد جس طرح ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں، یہ رویہ ہمارے معاشرے کے لئے انتہائی شرمناک ہے۔ ابتدائی تفتیش میں ایسی کوئی بات سامنے نہیں آئی کہ پروفیسر حمیدخالد نے شان رسالت ﷺ یا شعائر اسلام کی توہین کی تھی۔ یہ قتل ایک جنونی انتہا پسند قاتل کی اس نفسیاتی کیفیت کا نتیجہ ہے جس میں خود کو مذہب کے پیمانے پر اعلیٰ سمجھتے ہوئے اپنے طور سے جنت کا حقدار تصور کرلیا جاتا ہے۔
اس واقعے کا ایک افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ کسی جہالت میں ڈوبی بستی ،گلی محلے یا گاؤں میں پیش نہیں آیا,بلکہ یہ سانحہ ایک درس گاہ میں رونما ہوا،جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انتہاپسندی ، جنون اور وحشت کسی خاص طبقے اور جگہ تک مخصوص نہیں بلکہ ہمارے ملک میں تشدد کا چلن گلیوں سڑکوں سے ہوتا ہوا کالجز اور یونیورسٹیوں کی لابی تک پہنچ چکا ہے۔
ہمارے معاشرے میں تشدد کا عنصر اس حد تک پھیل چکا ہے کہ ایک عام آدمی جو تنہا کسی پر ہاتھ بھی نہیں اٹھا سکتا، موقع ڈھونڈتا ہے کہ ہجوم کے ساتھ شامل ہوکر اپنے اندر چھپے وحشی کو سامنے لاسکے۔ ہمارے ہاں ایسے بہت سے واقعات سامنے آچکے ہیں جب کسی پر مذہب کے حوالے سے الزام لگا کر اسے بدترین تشدد اور تذلیل کا نشانہ بناکر مارڈالا گیا ۔ پھر کون دیکھتا ہے کہ جرم سرزد ہوا بھی تھا یا نہیں؟۔
اول تو پروفیسر صاحب ایسے نظریات رکھتے نہیں تھے جن کی مخالفت ہمارے ملک میں ایک بڑی تعداد میں کی جاتی تھی اور اگر رکھتے بھی تھے تو کسی کے بھی نظریات کی بناءپر قتل جیسا سنگین قدم اٹھانا ہمارے معاشرے اور اس میں پنپتی انتہاءپسندسوچ پر ایک سوالیہ نشان ہے۔کشت و خون کا یہ سلسلہ تباہی کی زنبیل ہے، اس حوالے سے علما کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور لوگوں کو بتانا چاہیے کہ کسی جرم سے متعلق ریاستی قوانین اور اداروں کے ہوتے ہوئے قانون اپنے ہاتھ میں لینا اور کسی کو نقصان پہنچانا خود اسلام کے خلاف ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر کسی پر مذہب کی توہین کا الزام ہے بھی تو کم ازکم اس کی بات تو سنی جاسکتی ہے، اسے بولنے کا موقع تو دیا جاسکتا ہے، مگر ایسا نہیں کیا جاتا، کیوں کہ یہ مذہب سے محبت کا معاملہ نہیں، یہ تو ایک وحشت ہے، ایک جنون ہے جو انسانی خون پی کر خوش ہوتا ہے، جو کسی کو تڑپ تڑپ کر مرتے دیکھ کر نہال ہوجاتا ہے۔ یہ جنون، یہ وحشت کبھی مذہب کے نام پر سامنے آتی ہے، کبھی لسانیت، علاقائیت، ذات، برادری، فرقے اور سیاست کے نام پر۔ یہ معاشرے میں تشدد کا بڑھتا ہوا رجحان ہے جو مختلف شکلوں میں سامنے آتا ہے۔ ہمیں اس نفسیات کو اس رویے کو بدلنے کے لیے ہر سطح پر کوششیں کرنی ہوں گی، ورنہ آپ، میں، ہمارے گھر کا کوئی فرد، کوئی بھی اس وحشت اس جنون کا شکار ہوسکتا ہے۔
پروفیسر خالد حمید کا قتل فقط اُن کے اہلخانہ، احباب اور اُن کے ہزاروں طلباءہی کے لئے ناقابلِ تلافی نقصان نہیں،یہ پوری قوم اور ریاست کا زیاں ہے ، ایک استاد کا قتل گویا علم و آگہی کے شہر کو مٹادینے کے مترادف ہے۔ریاست کو اپنے اس ہولناک نقصان کے بارے میں اب سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔
.
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔
.
( پروفیسر ثناء غوری ابلاغ عامہ کی استاد، کالم نگار، بلاگر، مصنفہ اور سیاسی و معاشرتی تجزیہ کار ہیں، وہ معاشرے کے سلگتے ، حساس اور ا ن موضوعات پر بھی بلا جھجک اور بے تکان لکھتی رہتی ہیں جن کے بارے میں ہمارے معاشرے میں سوچنا بھی گناہ تصور کیا جاتا ہے ، پروفیسر ثنا غوری اب ”ڈیلی پاکستان آن لائن“ کے لئے بھی خصوصی طور پر لکھ رہی ہیں ، آپ ان سے براہ راست رابطے کے لئے ان کی ای میل آئی ڈی sanaghoriexpress@gmail.com پر رابطہ کر سکتے ہیں۔)