تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ نہیں ہو سکتا
ایک ایسے وقت میں جب ہر کسی کو نوکری کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور تنخواہ کم ہونے کی تلوار سروں پر لٹک رہی ہے، وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی فہم کو داد دینے دل کرتا ہے، جنہوں نے اپنی تنخواہ میں اضافہ اور لاہور میں گھر پکا کرنے کا بل پیش کر دیا۔ ہمارے دوست یونس کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کیسے زمیندار ہیں جو جگہ جگہ گھر بنانے کا خواب بن رہے ہیں ، ان کے مطابق زمیندار تو ہو تا ہے جو ایک گھر کو کافی سمجھتے ہوئے لالچ اور لعب سے پاک رہتا ہے اور ہوچھے پن کا مظاہرہ نہیں کرتا ہے۔ یونس کا یہ بھی خیال ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی تنخواہ میں اضافہ روک کر ایک Precedentسیٹ کردیا ہے کہ اب ملک میں کوئی بھی تنخواہ میں اضافے کامطالبہ نہیں کر سکتا ہے تا آنکہ خوش حالی کا دور دورہ نہ ہو جائے،جبکہ ہم کہتے ہیں کہ اضافہ تو چھوڑیئے اب تو تنخواہ کا مطالبہ بھی نہیں ہو سکتا کہ بقول وزیراعظم کے ابھی خوشحالی نہیں آئی ہے۔
چند دن پیشتر پاکستان کرکٹ بورڈ کے اور شوگر ملز انڈسٹری کے سابق چیئرمین چودھری ذکاء اشرف سے ملنے گئے تو وہ ایک نوجوان کو اپنے دفتر میں بیٹھے کہہ رہے تھے کہ کمپنی میں رائٹ سائزنگ ہو رہی ہے اِس لئے ذرا کام کرتے نظر آئیں ، کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کی نوکری اس کی نذر ہو جائے ۔ ایسی ہی بات 2008ء میںNetSol Technologies کے مالک سلیم غوری کو بھی اپنی کمپنی کے ایک نوجوان کو کہتے بھی سنا تھا کہ چونکہ گلوبل Recession چل رہا ہے اِس لئے ذرا کام کرتے نظر آئیں وگرنہ کمپنی میں ہونے والی چھانٹیوں کی نذر ہو جائیں گے۔ ہم سوچ رہے تھے کہ ہمارے ممبران اسمبلی کس دُنیا میں بستے ہیں کہ انہوں نے ملک کی اس معاشی کسمپرسی کے عالم میں اپنی تنخواہوں میں اضافے کا بل نہ صرف پیش کردیا بلکہ پاس بھی کر دیا۔ آفرین تو حمزہ شہباز شریف پر ہے جو غریبوں کے غم میں مرنے کی اداکاری ایسے کرتے ہیں کہ ان پر صدقے واری جانے کو جی چاہتا ہے مگر جب کھانے کی باری آتی ہے تو پانچ انگلیوں کی طرح وہ پی ٹی آئی کی اس حکومت کے ساتھ شیروشکر ہو گئے، جس کے انتخابات کو وہ جائز اور قانونی تصور نہیں کرتے ہیں ۔
کچھ یار لوگوں کا خیال ہے کہ یہ سارا ڈرامہ وفاقی حکومت نے وزیراعظم عمران خان کے نمبر بڑھانے کے لئے رچایا تھا ۔ اگر ایسا ہے تو کیا حمزہ شہباز شریف بھی اس ڈرامے کا حصہ تھے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ہمارے ممبران اسمبلی کب تنخواہوں پر بیٹھے ہوتے ہیں ، وہ اشیائے خوردونوش کی خریداری کے لئے کب تنخواہ ملنے کے منتظر ہوتے ہیں۔ یادش بخیر ایک مرتبہ فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے ایم پی اے امان اللہ خان کے گھر جانے کا موقع بنا تو کیا دیکھا کہ ان کی بیگم صاحبہ انتہائی نفیس فرنیچر کی خریداری کر کے واپس لوٹی ہیں اور میاں صاحب کو اس کے محاسن بیان کر رہی ہیں ۔ اس اثناء میں وہ صاحب ثروت بھی آگئے، جنہوں نے امان اللہ خان ایم پی اے کو خوش کرنے کے لئے ان کے گھر میں نیا فرنیچر ڈلوا کر دیا تھا، مگر لگتا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو ایسی کوئی آفر نہیں ہوتی ہے وگرنہ وہ اس گھڑی کی آمد سے خوفزدہ ہو کر ابھی سے وہ کچھ نہ کرتے جو کچھ کرکے انہوں نے اپنے آپ پر جگ ہنسائی کا موقع فراہم کیا۔
ن م راشد یاد آگئے کہ
ان کہی سے ڈرتے ہو
جو ابھی نہیں آئی
اس گھڑی سے ڈرتے ہو
اس گھڑی کی آمد کی
آگہی سے ڈرتے ہو
اگرچہ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ خوش حال وہ ہوتا ہے، جس کا مستقبل محفوظ ہو، چنانچہ جو کچھ پنجاب اسمبلی کے ممبران نے کیا ہے اس سے لگتا ہے کہ ان کا مستقبل مخدوش ہے اور انہیں آپا دھاپی پڑی ہوئی ہے ۔ ویسے ہماراد ل نہیں مانتا کہ مرد ایم پی ایز تنخواہ میں اضافے کے لئے مرے جا رہے ہوں گے ،اگر کوئی ایسی خواہش ہوگی تو ضرور خواتین ایم پی ایز کی جانب سے ہوگی جن کا خیال ہوگا کہ جس خدمت خلق پر وہ مامور ہیں اس کے عوض انہیں ملنے والا معاوضہ بہت کم ہے ، اس لئے انہوں نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو مشورہ دیا ہو گا کہ وہ تنخواہوں میں اضافے کا بل پاس کروائیں۔ بیچارے عثمان بزدار خواتین کے کہے میں آ گئے اور بیٹھے بٹھائے وزیراعظم عمران خان سے جھاڑیں کھا بیٹھے،کوئی بات نہیں مقدر میں لکھے دھکے تو کھانے پڑتے ہیں!