’’لاک ڈاؤن کے دوران مساجد میں باجماعت نماز کی ادائیگی ضروری نہیں‘‘سینیٹر ساجد میر اپنی جماعت کےعلماء پر ہی برس پڑے

’’لاک ڈاؤن کے دوران مساجد میں باجماعت نماز کی ادائیگی ضروری نہیں‘‘سینیٹر ...
’’لاک ڈاؤن کے دوران مساجد میں باجماعت نماز کی ادائیگی ضروری نہیں‘‘سینیٹر ساجد میر اپنی جماعت کےعلماء پر ہی برس پڑے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن)مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے سربراہ سینیٹر علامہ ساجد میر نے کہا ہے کہ اسلام تقدیر پر ایمان کے ساتھ تدبیر تلاش کرنے پر بھی زور دیتا ہے،لاک ڈاؤن کے دوران مساجد میں باجماعت نماز کی ادائیگی ضروری نہیں،لوگ گھروں میں نماز ادا کریں،

تفصیلات کےمطابق مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کےسربراہ سینیٹرعلامہ ساجدمیر لاک ڈاؤن کے دوران باجماعت نماز کی ادائیگی پر اصرار کرنے والے اپنے ہی علما پر برس پڑے اور  انہیں تنگ نظر قراردے دیا۔اپنے ویڈیو پیغام میں سینیٹرعلامہ ساجدمیر نے کہا ہے کہ کرونا وائرس سے بچنے کی احتیاطی تدبیر کے پیش نظر لاک ڈاؤن کے دوران مساجد میں باجماعت نماز کی ادائیگی سے ضروری نہیں،لوگ گھروں میں نماز ادا کریں،ناگزیر اور ہنگامی صورتحال میں انسانی جان بچانا ضروری ہے،اپنی اور دوسروں کی جان بچانا ضروری ہے،اسلام تقدیر پر ایمان کے ساتھ تدبیر تلاش کرنے پر بھی زور دیتا ہے، توکل علی اللہ پر ہما را ایمان ہے مگر یہ دنیا عالم اسباب ہے،مسبب الاسباب اللہ کی ذات ہے،یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بہترین سبب کے باوجود نتیجہ نہ نکلے،ہمارے سامنے ایک سبب دوائی اور دوسرا احتیاطی تدابیر ہیں۔انہوں نے کہا کہ آقا علیہ السلام کا فرمان کہ کوئی بیماری بذات خود متعدی نہیں۔درست ہے۔تاہم متعدی ہونا بھی اللہ کی۔طرف سے ہے۔آپ ﷺ نے بنو ثقیف کے ایسے شخص جو کوڑھ کے مرض کا شکار تھا کی دور سے ہی بیت لے لی تھی،اسے قریب نہیں آنے دیا تھا،پھر فرمایا کہ کوڑھ کے مرض کو دیکھ کر ایسے بھاگو کہ جیسے شیر کو دیکھ کر بھاگتے ہو۔طاعون کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ ایسے علاقے میں رہنے والے باہر نہ نکلیں،گھروں میں بند رہیں۔ یہ لاک ڈاؤن کی دلیل ہے۔

انہوں نےکہاکہ پاکستان میں کرونا وائرس سےبچنے کےپیش نظر حکومت کے جزوی لاک ڈاؤن کی حمایت کرتے ہیں،اس دوران مساجد میں جانا ضروری نہیں، لوگ گھروں میں نماز اداکریں۔انہوں نے کہا کہ جو علماء قرآن کی اس آیت کہ جس میں کہا گیا کہ ’’اس سے زیادہ ظالم کون ہو سکتا ہے جو لوگوں کو مساجد میں جانے سے روکے‘‘سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ ہر حالت میں مسجد میں جانا ضروری ہے،بالکل غلط ہے،اللہ تعالی نے آپ کو تعلیم ،کتاب کے ساتھ حکمت بھی عطاکی آپ حکمت کے بھی وارث ہیں، آپ علیہ السلام کتاب الہی کی بہترین تشریح ہیں،حکمت سے دین سیکھنا چاہیے،مذکورہ استدلال بالکل غلط ہے،آخر مصلحت عامہ بھی کوئی چیز ہے،موت سے بچانے کے لیے مسجد میں۔جانے سے روکا جارہا ہے۔جس طرح پہلے اسلام اور جمہوریت۔کی بحث کے دوران یہ استدلال کیا جاتا تھا کہ اگر تم اکثریت کے پیچھے چلو گے تو تمھیں گمراہ کردیں گے۔اسکامطلب ہر گز یہ نہیں دنیاوی اقدامات درست نہیں۔اس طرح کے استدلال انتہائی تکلیف دہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دیکھنا یہ ہےکہ کیا مسجد جانے سے اس لیے روکا جارہا ہے کہ نعوزباللہ مسجدیں برباد ہوں؟ہرگز ایسا نہیں،عرب ممالک کو دیکھیں کہ کتنی عالیشان مساجد بنائی ہیں انہوں نے،کیا مسجدیں بنانے والے چاہیں گے کہ انہیں برباد کردیں؟ہمارے بزرگ کہا کرتے تھے کہ ایک من علم کے ساتھ نو من عقل چاہیے۔ اس طرح نہیں ہونا چاہیے کہ معمولی سا علم رکھنے والے بڑے بڑے فتوی صادر کرنا شروع کردیں،ایک حدیث میں یو ں بھی ہےکہ بیمار اور صحت مند کا اختلاط نہیں ہونا چاہیے،براہ کرم دین کی تشریح درست پیرائے میں کریں،دین کے تصور کو تنگ نہ کریں،دین کو محدود مت کریں،ذاتی عقل کی تنگنائی میں بات مت کریں، جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم سعودی علماءکی حمایت کسی درہم اور دینارکی خاطر کررہے ہیں وہ خوفِ خدا کریں  اور دوسروں کی نیت پر حملے نہ کریں، اگر آپ کے پاس علم ہے تو ان کے پاس بھی علم ہے۔

واضح رہے کہ چند روز قبل مرکزی جمعیت اہل حدیث کے سینئر رہنما علامہ ہشام الٰہی ظہیر نے درجنوں جید اہل حدیث علما کے اعلامیہ میں موقف اختیارکیا تھا کہ نماز بھی باجماعت ہو گی اور مساجد بھی بند نہیں کریں گے ۔ْ