تپ دق، مہلک مگر قابل ِ علاج مرض
پاکستان میں ہر سال تقریبا پانچ لاکھ افراد تپ دق کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔یہ مرض زیادہ تر پسماندہ علاقوں کے رہنے والوں میں پایا جاتا ہے جہاں غربت،بھوک، افلاس، آلودہ ماحول اور صحت کی بنیادی سہولتوں کی کمی پائی جاتی ہے۔تپ دق یا ٹی بی ان انسانوں میں بھی زیادہ پائی گئی ہے جن کا مدافعتی نظام کمزور ہو۔بدقسمتی سے دنیا کے کسی بھی ملک میں ابھی تک اس مہلک بیماری کامکمل خاتمہ نہیں ہو سکا۔صحت کے عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق 2016ء میں دس اعشاریہ سات ملین لوگ ٹی بی میں مبتلا ہوئے جن میں سے ایک اعشاریہ سات ملین لوگ موت کے منہ میں چلے گئے۔دنیا بھر کے ٹی بی کے مریضوں کی شرح نسبت کے مقابلے میں پاکستان سمیت سات ممالک بھارت،نائیجیریا،ساؤتھ افریقہ،چین اور انڈونیشیامیں چونسٹھ فیصد مریض پائے جاتے ہیں جن میں بھارت سرفہرست ہے۔عالمی ادارہ صحت نے موجودہ سال کے آخر تک دنیا بھر میں اس مہلک مرض کے مکمل خاتمہ کا تہیہ کر رکھا ہے۔اس سلسلے میں عالمی سطح پر بھرپور اقدامات کئے گئے ہیں جن میں تپ دق کے مرض سے متعلق ادویات کی فراہمی، عام لوگوں میں آگاہی پروگرام، ترقی پذیر ممالک کو اس مرض کی روک تھام و علاج سے متعلق خصوصی فنڈز کی فراہمی اور رہنمائی وغیرہ شامل ہیں۔
کورونا اور تپ دق کا وائرس چونکہ انسانی پھیپھڑوں پر حملہ کرتا ہے اس لئے دونوں بیماریوں کی کچھ علامات ملتی جلتی ہیں۔تپ دق اب ایک لاعلاج بیماری نہیں رہی،اس کا علاج موجودہے جسے اختیار کرکے مریض موت کے منہ میں جانے سے بچ سکتا ہے لیکن کورونا کا ابھی تک کوئی علاج دریافت نہیں ہو سکا اگرچہ کامیاب تجربات کے بعداس کی ویکسین تیار ہوچکی ہے اوردنیا بھر میں کورونا ویکسین لگانے کا عمل شروع بھی ہوچکا ہے۔کورونا اور تپ دق، دونوں بیماریوں کا حملہ چونکہ پھیپھڑوں پر ہوتا ہے اس لئے صحت کے کچھ ماہرین نے تپ دق کی ویکسین سے کوروناکے مریضوں پرتجربات بھی کئے جس کے حوصلہ افزاء نتائج برآمد ہوئے۔ پاکستان میں تپ دق کے علاج،ٹیسٹ اور مفت ادویات کی فراہمی کے باوجود تپ دق کے بہت سے مریض اپنا علاج نہیں کرواتے یا زیر علاج مریض اپنا کورس مکمل نہیں کرپاتے جس کے نتیجہ میں وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
اس لئے اگر کوئی فرد مسلسل بخار،تین سے چار ہفتے تک کھانسی کا کم نہ ہونا،بھوک میں کمی اور وزن میں کمی کا شکار ہوجائے تو اسے فورا طبی معائنہ کراناچاہیئے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ اسے کورونا ہے یا تپ دق۔تپ دق اب مکمل قابل علاج مرض ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ اس کا علاج جلد شروع ہوجائے۔علاج میں تاخیر یا نامکمل علاج کی صورت میں ٹی بی کا جرثومہ انسانی پھیپھڑوں کو ناکارہ بنانے کے ساتھ ساتھ جسم کے دیگر حصوں میں پھیل کر موت کا سبب بن جاتا ہے۔تپ دق میں مبتلا مریض کوعام انسانوں کی نسبت کورونا لاحق ہونے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں اس لئے اب تپ دق کا خاتمہ ازحد ضروری ہوگیا ہے۔پاکستان کو تپ دق سے پاک ملک بنانے کے لئے اس بیماری میں مبتلا افراد کو ذمہ داری کامظاہرہ کرتے ہوئے اپنے علاج پر پوری توجہ دینی چاہئے۔