اپیکورس کا فلسفہ 600 سال تک قائم رہا، عمرِ خیام اور حافظ شیرازی اِس سے بہت متاثر تھے

 اپیکورس کا فلسفہ 600 سال تک قائم رہا، عمرِ خیام اور حافظ شیرازی اِس سے بہت ...
 اپیکورس کا فلسفہ 600 سال تک قائم رہا، عمرِ خیام اور حافظ شیرازی اِس سے بہت متاثر تھے

  

مصنف:لطیف جاوید

قسط:24

 اپیکوریت(Epicureanism)

 اِس مکتبِ فکر کا بانی اپیکور س(Epicurus) تھا۔ اپیکورس خالص یونانی تھا۔اِس کے والدین ایتھنز کے ہی رہنے والے تھے۔ اپیکورس 340 ق م میں سیباس میں پیدا ہوا۔اِس نے اپنے باغ میں ہی مدرسے کی بنیاد رکھی۔اِسی مدرسے سے اپیکوریت مکتب ِ فکر کا آغاز ہوا۔یہ مکتبِ فکر دیر تک انسانی نظریات کو متاثر کرتا رہا۔

 عمرِ خیام اور حافظ شیرازی اِس سے بہت متاثر تھے۔حکمران سیزرز ون کے دور میں اِس کو حکومتی پشت پناہی حاصل تھی۔اپیکورس کا فلسفہ 600 سال تک قائم رہااور پھر دم توڑ گیا۔

۰ نظریات 

 اپیکورس کائنات کی حقیقت مادی سالمات خیال کرتا تھا۔یعنی اِس ضمن میں وہ جواہرین کا حامی تھا۔وہ روح کو بھی مادی ذرات کا ایک منظم نظام سمجھتا تھا ،وہ روح کے مستقل وجود کا قائل نہ تھا اُس کے نزدیک موت پرروح بھی ختم ہو جاتی ہے۔

۰ وہ عقیدہ پرستی کو اِنسان کی مصیبتوں کا سبب قرار دیتا ہے۔

۰ اپیکورس خیر اور انصاف چاہنے والے کسی آسمانی آقا کا قائل نہ تھا۔بقول اُسکے اگر کوئی ایسی ہستی ہے تو پھر وہ پاک ہستی سب اِنسانوں یعنی نیک و بد کے لئے سیلاب، طوفان ،قحط ،زلزلے ،وبائی امراض،بجلی کے جان لیوا کڑکے،جیسی آفات کیوں وارد کرتی ہے؟

۰ فطری علوم کے متعلق اس کا کوئی کام نہیں۔وہ فزکس کا مطالعہ صرف اِس لئے کرتا ہے کہ اِس سے عقیدہ پرستی کا رد پیش کرسکے۔ 

۰ اپیکورس لذّت پرستی کا حامی تھا۔ اُس کے نزدیک اِنسانی زندگی کا سب سے بڑا مقصد لذت کا حصول ہے۔لیکن اُس کے نزدیک لذت پرستی سے مراد شہوت پرستی اور عیش پرستی نہ تھی۔

 اپیکوریت کے نظریات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یونانی فلسفہ اپنے ہمہ جہت آفاقی مقاصد سے ہٹ کر صرف لذّت پرستی اور آسمانی آقاؤں کی مخالفت تک محدود ہو جاتا ہے،جو زوال پذیری کی علامت ہے۔یہ عجیب واقعہ بھی ذہن میں رہے کہ رواقیت اور اپیکوریت ایتھنز کی فضا ءمیں ہم عصر تحاریک تھیں لیکن اِن میں حد درجہ نظریاتی تفاوت پایا جاتا تھا۔

 شکوک پسندی (Scepticism) 

اِس مکتبِ فکر کا بانی پرہو( Pyrrho) تھا۔یہ ارسطو کا ہم عصر تھا اور سکندر اعظم کا دوست تھا۔جب سکندر نے ہندوستان پر حملہ کیا تو پرہو بھی ا س کے ساتھ تھا۔معلو م ہوتا ہے کہ پرہو نے ہندو ازم کا بھی مطالعہ کیا کیونکہ اس کے فلسفہ پر ہندی فلسفہ کے اثرات بھی ہیں۔اِس نے کوئی کتاب یا رسالہ تحریر نہیں کیا۔اس کے نظریات اُس کے شاگرد ٹمن(Timon) کے حوالے سے متعارف ہوتے ہیں۔ ( جاری ہے )

نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔

مزید :

ادب وثقافت -