صبح سکول جانے تک ہم ریڈیو سنتے رہتے ”بناکا گیت مالا“ سب کا پسندیدہ پروگرام ہوا کرتا تھا، امین سیانی لہک لہک کر مختلف گانے پیش کیا کرتے تھے

صبح سکول جانے تک ہم ریڈیو سنتے رہتے ”بناکا گیت مالا“ سب کا پسندیدہ پروگرام ...
صبح سکول جانے تک ہم ریڈیو سنتے رہتے ”بناکا گیت مالا“ سب کا پسندیدہ پروگرام ہوا کرتا تھا، امین سیانی لہک لہک کر مختلف گانے پیش کیا کرتے تھے

  

 مصنف: محمد سعید جاوید

قسط:55

 صبح سکول جانے کے وقت تک ہم اس پر ریڈیو سیلون سنتے رہتے تھے ۔اس کا ”بناکا گیت مالا“ ہم سب کا پسندیدہ پروگرام ہوا کرتا تھا، جس میںامین سیانی لہک لہک کر مختلف گانے پیش کیا کرتے تھے ۔ ریڈیو پاکستان کے کراچی اسٹیشن پر دوپہر12 بجے فلمی گانے چلتے تھے اور ”کیپسٹن ہٹ پریڈ“ میں چوٹی کے ہندوستانی اور پاکستانی گیت سنوائے جاتے تھے۔1 بجے کاوقت خبروں کے لیے مخصوص تھا، جس کا بڑوں کو بہت انتظاررہتا تھا۔ شام ڈھلے مذہبی پروگرام ہوتے تھے یا کسی استاد اور ان کی منڈلی کو سارنگیاں اور طبلے دے کر بٹھا دیا جاتا اور یوں ان سے کچے پکے راگ سنوا کر وقت گزارا جاتا تھا ۔ مغرب کا وقت بچوں کے لیے اور پھر کچھ مذہبی پروگرام ہوتے تھے ۔ رات8 بجے پہلے انگریزی میں اور پھر اردومیں خبریں ہوتی تھی ۔ اپنی انتہائی سریلی اور لہراتی بل کھاتی آواز میں جہاں آرا سعید انگریزی خبریں پڑھتی تھیں، جو کم از کم ہمارے تو اوپر سے گزر جاتی تھیںاور ہمیں خاک سمجھ نہ آتا تھا کہ وہ کیا بتا رہی ہیں، تاہم آپس کی بات ہے کہ ان کی ادائیگی بہت پیاری تھی اوردل کو بڑا بھاتی تھی ۔ انیتا غلام علی بھی انگریزی کی نیوز کاسٹر تھیں اور بڑے سپاٹ لہجے مگر بہترین انداز میں جلدی جلدی خبریں سنا کر چلی جاتی تھیں ۔ وہ استاد بھی تھیں اس لیے ا نگریزی کے شین قاف کا بڑا خیال رکھا کرتی تھیں۔

کچھ اور ادھر اُدھر کے پروگرام پیش کیے جاتے اور پھر اردو خبروں کا وقت ہوتے ہی مائک گرج دار آواز والے شکیل احمدکو تھما دیا جاتا تھا جو آتے ہی سارے دن کا کچا چٹھا سنا دیا کرتے تھے ۔پاکستان کی تاریخ میں ان سے بلند آواز اور بہتر انداز میں خبریں پڑھنے والا پھر کوئی نہ آیا ۔ان کی کرختگی کو متوازن رکھنے کے لیے اکثر اوقات انور بہزاد کو خبریں پڑھنے پر مامور کر دیا جاتا تھا ، جو ایک بہت بڑے شاعر اور نعت خواں بہزاد لکھنوی کے صاحبزادے تھے ۔ وہ اپنی نر م و ملائم اور لچک دار آواز میں اس طرح خبریں پڑھتے تھے کہ سننے والے اگر سامنے نہ صحیح تو دل میں ضرور ان کی دلکش آواز کا اعتراف کرتے ہوں گے ۔

ان کے علاوہ عبدالا سلام ، وراثت مرزا اور شمیم اعجاز بھی ہوتی تھیں ۔ یہ تمام لوگ اہل زبان تھے اور بہترین تلفظ اور منفرد انداز میں اپنی اپنی باری پرخبریں سنایا کرتے تھے ۔

ریڈیو سننے کا اصل مزہ تو9بجے کے بعد ہی آیا کرتا تھا جب خاندان کے تمام افراد کام کاج سے فارغ ہو کر ریڈیو کے آس پاس بیٹھ جاتے تھے۔ تب ہی ریڈیو کی تاریخ کا سب سے شاندار ہفتہ وار پروگرام ”اسٹوڈیو نمبر نو“ شروع ہوا کرتا تھا جس میں ریڈیو کے بڑے بڑے فنکار اپنے فن کا جادو جگایا کرتے تھے ۔ اس میں اپنے دور کے بہترین مقامی اور دوسری زبانوں سے اخذ کیے گئے ڈرامے نشر ہوتے تھے جن میں وہ سب ہی فنکار اپنی آوازوں کا جادو جگاتے تھے جو آگے چل کر پاکستان ٹیلی وژن اور فلم انڈسٹری کا بہترین سرمایہ بنے ۔ کچھ نام تو ابھی بھی یادوں کے ایک کونے میں محفوظ ہیں جبکہ کچھ وقت کے ساتھ ذہن سے محو ہوتے گئے ۔ بھلا ایس ایم سلیم ، طلعت حسین ، قاضی واجد ، محمود علی ، ذہین طاہرہ ، ظہور احمد ، جمشید انصاری ، شکیل احمد ، نیلوفر علیم ، عرش منیر ، محمد علی ، سنتوش رسل ، عشرت ہاشمی اور ننھی سی پروین عرف منی باجی کو کون بھول سکتا ہے ! یہ لوگ ڈراموں میں اس خوبصورتی سے اپنا اپنا کردار نبھاتے تھے کہ سننے والے عش عش کر اٹھتے ۔ ( جاری ہے ) 

نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )

مزید :

ادب وثقافت -