4 ہزارریال کی نوکری مل گئی پاکستان میں صرف 800روپے تنخواہ تھی،تھوڑا سا غرور بھی آ گیا تھا، سوچا ساتھیوں کو یہ فرق بتاؤں گا تو کتنا جلیں گے مجھ سے

4 ہزارریال کی نوکری مل گئی پاکستان میں صرف 800روپے تنخواہ تھی،تھوڑا سا غرور ...
4 ہزارریال کی نوکری مل گئی پاکستان میں صرف 800روپے تنخواہ تھی،تھوڑا سا غرور بھی آ گیا تھا، سوچا ساتھیوں کو یہ فرق بتاؤں گا تو کتنا جلیں گے مجھ سے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمد سعید جاوید
قسط:220
    استقبالیہ والوں نے مجھے آفس مینجر کے کمرے کی طرف روانہ کر دیا۔ وہاں ایک اُدھیڑ عمر امریکن بیٹھا ایک پاکستانی لڑکے کا انٹرویو کرنے کی ”کوشش“ کر رہا تھا۔سامنے وہ لڑکا اور اس کے ساتھ ہی چپک کر اس کا باپ بیٹھا ہوا تھا جو پاکستان ایئرفورس کی وردی میں ملبوس تھا۔ امریکی جو بھی سوال لڑکے سے کرتا، اس کاباپ راستے سے ہی اُچک لیتا اور فوراً اس کا جواب دے دیتا۔گورا معنی خیز انداز میں مسکراتا رہا۔ آخر میں کہنے لگا ”سربات یہ ہے کہ میرے پاس صرف ایک ہی جگہ خالی ہے اور آپ لوگ تو2ہیں“۔ باپ بولا ”2، کیا مطلب؟ میں سمجھا نہیں۔“ کہنے لگا ”سر اس لڑکے کو کچھ کہنے سننے کے لیے ہمیں ہمیشہ آپ کی ضرورت بھی تو ہو گی نا۔“وہ شرمندہ ہو کر چلے گئے۔میری باری آئی، کاغذ آگے رکھے گورا دیکھ کر کچھ متاثر ہوا، میں انگلش کو بھی اچھا خاصا منہ مار لیتا تھا، آخر کو بینک مینجر جو تھا۔کہنے لگا ہمیں ضرورت تو ہے اور آپ اس ملازمت کے لیے اہل بھی ہو لیکن بات یہ ہے کہ ہمارا پروجیکٹ مینجر رالف چھٹی پر گیا ہوا ہے اس لیے آپ ایک ہفتے بعد آکر پتہ کر لینا۔ گویا پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔یہ نوکری نہ دینے کا ایک فرسودہ سا بہانہ تھا جو میں 3مہینے سے سنتا آ رہا تھا۔ ماضی میں جس کسی نے بھی یہ کہا تھا وہاں سے حسب وعدہ کبھی اطلاع ہی نہیں آئی تھی۔لیکن یہاں آس کا بندھن اس لیے بھی قائم تھا کہ پہلی دفعہ مجھے کہا گیا تھا کہ ایک ہفتے بعد آجانا جو کسی حد تک ایک مثبت اشارہ تھا۔ پھر بھی میں نے احتیاطاً گورے کی سچائیاں جانچنے کے لیے استقبالیہ والے لڑکے سے رالف کا پوچھا اس نے بھی بتایا کہ واقعی ہی وہ چھٹی پر امریکہ گیا ہوا ہے اگلے ہفتے آئے گا۔ یوں کسی حد تک امید کی کرن جاگی لیکن میں اس دن بھی سکون سے نہیں بیٹھا اور نہ اس کے بعد ہی، حسب معمول روزگار کی تلاش کا سلسلہ جاری رہا اور میں گلی گلی بھٹکتا ہی رہا۔
اور نوکری مل گئی
خدا خدا کر کے جب ہفتہ پورا ہوا تو میں اسی کمپنی میں پہنچ گیا۔گورے آفس مینجر نے مجھے پہچان لیا اور بیٹھنے کو کہا اور کسی کو فون کیا۔ تھوڑی دیر میں ایک اور ادھیڑ عمر گورا کمرے میں آ گیا جس کا تعارف رالف کہہ کر کروایا گیا۔ پہلی ہی نظر میں ہم دونوں نے ہی فوراً ایک دوسرے کو پسند کر لیاتھا، وہ مجھے اوپر اپنے کمرے میں لے آیا، سرسری سا بائیوڈیٹا دیکھا اور ساتھ لگی ہوئی دستاویزات پر اچٹتی سی نظر ڈالی اور لاپرواہی سے میز پر رکھ دیا۔ میں نے جلدی سے کہا کہ میں آپ کواصلی دستاویزات بھی دکھاتا ہوں، کہنے لگا اس کی ضرورت نہیں، ہمیں آپ پر اعتبار ہے۔ فوراً مجھے کام سمجھایا، 4 ہزار ریال تنخواہ کا مژدہ سنایا اور کہا کہ تمہارا کام اچھا ہو گا تو ساتھ ساتھ تنخواہ بڑھتی جائے گی اور واقعی انھوں نے ایسا ہی کیا۔میں نے دل ہی دل میں 4 ہزار کو اڑھائی سے ضرب کیا جو اس وقت ریال کا ریٹ تھا تو سیدھا سیدھا 10 ہزار روپیہ بن گیا جب کہ بینک میں اس سال کی سالانہ اور خصوصی ترقیوں کے باوجود میری تنخواہ ابھی 800تک ہی پہنچ پائی تھی۔ کہیں سے تھوڑا سا غرور بھی ذہن میں آ گیا تھا اور انسانی فطرت کے مطابق سوچا کہ جب اپنے ساتھیوں کو یہ فرق بتاؤں گا تو کتنا جلیں گے وہ مجھ سے۔اگلے دن مجھے باقاعدہ ڈیوٹی پر آنے کے لیے کہا گیا، میں نے کیمپ میں آکر چچا جان کو بتایا، وہ بہت خوش ہوئے اور ساتھیوں نے بھی مبارک باد دی۔ چچا جان میرے سعودی عرب میں داخلے اور قیام کا بہت بڑاذریعہ تھے۔ وہ ہمیں کبھی مایوس نہیں ہونے دیتے تھے۔ اب وہ اس دنیا میں نہیں رہے، اللہ تعالیٰ اُن کی مغفرت کرے، ان کا احسان زندگی بھر بھلا نہیں سکیں گے ہم۔
جس دن مجھے کمپنی کا تقرر نامہ ملا ٹھیک اسی دن شام کو میں نے بڑے اعتماد سے بینک والوں کو اپنا استعفیٰ بھیج دیا اور ان سے درخواست کی کہ میرے پینشن فنڈ میں سے میرا سارا قرضہ وصول کر کے باقی رقم میرے کھاتے میں ڈال دیں، اور انھوں نے ایسا ہی کیا۔اور یوں میں با عزت بری قرار پایا۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -