میں امریکہ سے وقت کی پابندی کاجو سبق پڑھ کر آیا تھا، وہ شادی بیاہوں یا دوسرے فنکشنز میں جلدی پہنچنے پر شرمسار کرواتا، اس میں دفتر آنا بھی شامل تھا
مصنف:محمد اسلم مغل
تزئین و ترتیب: محمد سعید جاوید
قسط:51
دفتری کام ہلکا پھلکا تھا اور ماحول بھی دوستانہ تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ یہاں کے اوقات کار صبح 8 بجے شروع ہونگے۔ غرض اگلے دن میں ٹھیک 8 بجے دفتر پہنچ گیا مجھے سوائے یہاں ایک خاکروب کے علاوہ کوئی بھی بند ہ بشر نظر نہ آیا وہ بھی اس وقت صفائی میں مشغول تھا۔ اس نے بتایا کہ یہاں کوئی بھی ملازم9 بجے سے پہلے نہیں آتا۔ یہاں کے ماحول کے لحاظ سے تو ہو سکتا ہے یہ صحیح ہو، لیکن میں، امریکہ سے جو وقت کی پابندی کا سبق میں پڑھ کر آیا تھا، وہ مجھ کو شادی بیاہوں یا دوسرے فنکشنز میں جلدی پہنچنے پر جا بجا شرمسار کرواتا تھا۔ اس میں طے شدہ اوقات میں دفتر آنا بھی شامل تھا۔ میری وقت کی پابندی کی یہ عادت اتنی پختہ ہو چکی ہے کہ امریکہ سے واپسی کے 55 سال بعد بھی میں اس کو اپنائے ہوئے ہوں۔ جہاں بھی میں نے باس کی حیثیت سے کام کیا میں نے وقت کی پابندی کو سختی سے نافذ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ سرکاری محکموں میں تاخیری حربوں سے گھنٹوں کے حساب سے وقت ضائع کیا جاتا ہے جو ہم بچا بھی سکتے ہیں۔ لیکن اس کا نہ کسی کو احساس ہے اور نہ ہی اس پر کوئی ندامت کا اظہار کرتا ہے۔
شفقت قریشی چھٹی پر گئے تو مجھے کہا گیا کہ میں ان کی غیر موجودگی میں اس کے کام کو دیکھوں۔ اسی دوران مجھے سرکاری ذمہ داریوں سے نبٹنے اور سیکھنے کے مواقع ملے۔ جن سے مجھے آگے چل کربہت فائدہ ہوا۔ مجھے اپنی اس ملازمت کے دوران ڈائریکٹر کی اعانت بھی کرنا تھی اوران کی طرف سے سونپی گئی ذمہ داریوں سے بھی نبٹنا تھا۔ میں نے امریکی روایات اور طریقِ کار پر چلتے ہوئے سب سے خصوصاً اپنے ماتحت عملے سے دوستانہ تعلقات رکھنے کی کوشش کی لیکن میں اس میں بری طرح ناکام ہوا۔ کیونکہ انھوں نے میری اس نرمی کو کمزوری جان کر اس کا خوب فائدہ اٹھا یا اور کام کی طرف دھیان دینا کم کردیا۔ جس سے کام کی رفتار اور معیار دونوں ہی بری طرح متاثر ہوئے۔ پھر اپنے ساتھی افسروں کے مشورے پر میں نے یہ دوستانہ رویہ بدلا اور رسمی اور سخت انداز میں ماتحتوں کی گوشمالی شروع کردی۔ اور یہ ترکیب کارگر ثابت ہوئی اور یوں کام کی رفتار اور معیار معمول پر آگئے۔
سارے دوستوں میں صرف میرے پاس ہی اپنی ذاتی کار تھی جو میں امریکہ سے آتے وقت اپنے بچائے ہوئے پیسوں سے خرید کر لایا تھا۔ اس لیے میرے لیے آمد و رفت کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ میرا جب جی چاہتا میں شہر میں دوستوں سے ملنے چلا جاتا جہاں ہم فلم دیکھتے اور اچھے ریسٹورنٹ میں کھانا کھاتے تھے۔ اس کے علاوہ ہر مہینے میں ڈسکہ کا چکر ضرور لگاتا تھا اور اپنے والدین اور دوسرے عزیزوں سے مل آتا۔ یہ ایک حسین اتفاق نہیں تو اور کیا تھا کہ ہمارے خاندان کی یہ پہلی اور اکلوتی کار تھی۔ میرے سارے بھائیوں نے اسی کار پر باری باری ڈرائیونگ سیکھی اور اپنا ہاتھ صاف کیا۔ برسوں بعد میرے 3 بڑے بھائیوں نے، جو مشترکہ کاروبار کرتے تھے، مل کر اپنی کار خریدی۔ اس وقت تک وہ لوگ مشاق ڈرائیور بن چکے تھے۔ اور اب یہ عالم ہے کہ تمام بھائیوں کے علاوہ ان کے بچوں کے پاس بھی اپنی اپنی گاڑیا ں موجود ہیں۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ماشاء اللہ خاندان میں خوشحالی آگئی ہے۔
لاہور میں وقت بہت پُر لطف انداز میں گزر رہا تھا ہم چاروں دوست مل کر خوب مزے کرتے تھے۔ سلیم کا ایک باورچی تھا جو ہم سب کا کھانا بناتا تھا، اور ہم اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے۔ شریف بھٹی کو کھانے پینے کا شوق تھا اس لیے قدرتی طور پر میس انچارج کی پوزیشن پر وہی سجتا تھا۔ سو اسے ہی بنا دیا گیا۔ وہ بڑی محنت اور ذمہ داری سے اپنا فرض نبھاتا، اور جو خرچ آتا اس کو ہم لوگ آپس میں برابربانٹ لیتے تھے۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
