خسرہ کی روک تھام کے لئے ہنگامی اقدامات کئے جائیں
شہر میں خسرہ کا خطرہ بد ستور منڈلا رہا ہے۔ خسرہ کے مرض کی شدت میں تا حال کمی واقع نہیں ہوئی ۔ ایک روز قبل میو ہسپتال میں8ماہ کا احسان خسرہ کا شکار ہونے کے باعث دم توڑ گیا۔ شیرا کوٹ کے رہائشی8ماہ کے احسان اشفاق کو خسرہ کے مرض میں مبتلا ہونے کے باعث میو ہسپتال داخل کیا گیا، لیکن وہ جانبر نہ ہو سکا۔ 24گھنٹے کے دوران شہر کے مختلف ہسپتالوں میں خسرہ کے83نئے مریض سامنے آئے ہیں، جبکہ اب تک خسرہ سے54بچوں کی زندگیوں کے چراغ گل ہو چکے ہیں۔ گزشتہ روز بھی گنگارام میں8ماہ کی بچی خسرہ کے مرض سے لڑتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گئی۔ تقریبا دو ماہ قبل شہر پر خسرہ کا مرض حملہ آور ہوا تھا اور روزانہ خسرہ کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے نگران حکومت کو مرض کے بارے میں اقدامات اٹھانے پر مجبور کر دیا ۔ نگران حکومت نے مرض پر پابو پانے اور اس کی روک تھام کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کا اعلان کیا ۔
نگران وزیر صحت سلیمہ ہاشمی نے گزشتہ روز ہنگامی پریس کانفرنس کی اور کہا مرض کی وافرویکسین ہسپتالوں میں موجود ہے۔ تمام سرکاری ہسپتالوں میں خسرہ کے مریضوں کے لئے خصوصی طور پر الگ وارڈ بھی بنا دیئے گئے ۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت نے مرض کی روک تھام کے لئے خصوصی ویکسی نیشن مہم بھی چلانے کا فیصلہ کیا ۔ خصوصی ویکسی نیشن مہم کے دوران سکولوں میں بھی10سال تک کے بچوں کو خسرہ سے بچاﺅ کے ٹیکے لگائے گئے۔ مساجد میںاعلان کر کے محلوں اور گلیوں میں بچوں کو ویکسین دی گئی۔ محکمہ صحت اور ضلعی انتظامیہ کے اہلکاروں کی طرف سے کوشش تو یہ کی گئی کہ شہر میں ہر بچے کو خسرہ کی ویکسین ضرور دی جائے ۔ اس کے باوجود شہر میں روزانہ درجنوں کی تعداد میں خسرہ کے مریض بچے ہسپتال لائے جا رہے ہیں اور روزانہ ایک دو مریض اس موذی مرض کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق بیماری کی حالیہ لہر کے دوران اب تک ان مریض بچوں کی تعداد ساڑھے 5ہزار سے بڑھ چکی ہے۔ یہ امر قابل تشویش ہے کہ حکومت کے تمام تر اقدامات کے باوجود خسرہ کا مرض بدستور پھیل رہا ہے اور خصوصی طور پر نوازئیدہ بچوں کے والدین کی تشویش روز بروز بڑھ رہی ہے۔ لاہور ہائیکورٹ نے بھی ایک شہری کی درخواست پر خسرہ کی وبا پھیلنے سے درجنوں بچوں کی ہلاکت پر شہر کے مختلف ہسپتالوں کے ایم ایس صاحبان کی جواب طلبی کی ہے، میو ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر زاہد پرویز ، سروس ہسپتال کی ایم ایس ڈاکٹر ریحانہ ملک اور جناح ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر اعجاز شیخ نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ خسرہ کے مرض میں مبتلا بچوں کو علاج کی بجائے ان کے والدین جادو ٹونے پر یقین رکھتے ہیں ،جس سے اموات ہو رہی ہیں۔ والدین اگر جادو ٹونے کی بجائے بچوں کا بر قت علاج کروائیں تو یقینا اموات کا سلسلہ رک سکتا ہے۔ ڈاکٹرز نے عدالت کو بتایا کہ ہسپتال میں لائے جانے والے خسرہ کے مریض بچے نمونیا سمیت دیگر پیچیدہ بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔
درخواست گزار کا موقف تھا کہ حکومت کی ناقص کارکردگی اور بر وقت حفاظتی مہم شروع نہ کئے جانے کے باعث خسرہ کا مرض وبا کی شکل اختیار کر چکا ہے اور اب تک درجنوں معصوم بچے خسرہ کی وجہ سے جان سے جا چکے ہیں۔ عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ویکسین کے استعمال کے باوجود بچوں کی اموات کا سلسلہ کیوں نہیں رک رہا ؟ ہمارا خیال بھی یہ ہے کہ حکومت کو اس بات کی تحقیق کروانی چاہئے کہ ویکسین کے استعمال کے باوجود خسرہ میںمبتلامریض بچوں کی تعداد میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے، جبکہ مریض بچوں کو بروقت اور بہتر علاج معالجے کی طرف بھی خصوصی توجہ دی جانی چاہئے۔ ویکسین مہم کے ساتھ ساتھ شہریوں کو خسرہ سے بچاﺅ کے حفاظتی تدابیر سے آگاہی کے لئے بھی ایک مہم چلائی جانی چاہئے۔
لاہور ہائیکورٹ نے خسرہ وباکے خلاف کیس کی سماعت 29مئی تک ملتوی کرتے ہوئے قرار دیا کہ ویکسین ناقص ہونے کی صورت میں محکمہ ¿ صحت کے وزیر صحت کو بھی جیل بھیجوایا جا سکتا ہے۔ عدالت نے پنجاب حکومت اور سیکرٹری صحت سے تحریری جواب طلب کر لیاہے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ ماہر ڈاکٹروں کی ایک ٹیم بنا کر ریسرچ کروائی جائے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ شہر میں آئے روز بیماریاں حملہ آور ہو رہی ہیں۔ اس سلسلے میں شہر کے پانی اور آب و ہوا کے بارے میں تحقیق از حد ضروری ہے۔ ٭