امریکہ۔۔۔ اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
پاکستان میں پاناما لیکس نے اودھم مچا رکھی ہے، جبکہ دنیا کے بیشتر ممالک میں ان پر توجہ تک نہیں دی گئی، کہیں کہیں ابتدائی جھٹکوں کے بعد مکمل سکون ہے۔ امریکہ میں بھی صورتِ حال کچھ ایسی ہی ہے کہ جہاں خود ٹیکس چوری کے سبق بھی پڑھائے جاتے ہیں اور کئی ریاستوں میں آف شور کمپنیوں کے لئے ترغیب و تحریص بھی دی جاتی ہے تو پھر وہاں کسی کو کیا پروا ہو کہ پاناما لیکس میں کیا ہے۔ گویا امریکہ کے حوالے سے اور بھی دکھ ہیں،زمانے میں محبت کے سوا۔ وہ غم کیا ہیں، آیئے ذرا دیکھیں۔ حال ہی میں ایوان نمائندگان نے پاکستان کی امداد کو کئی شرائط سے مشروط کر دیا۔ کانگریس میں ری پبلیکن اکثریت اس قسم کے اقدامات سے دوہرا مزا لیتی ہے۔ یعنی ایک تو قانون سازی کے ذریعے کسی اقدام کا جواز یا عدم جواز دوسرا اوباما حکومت کو نیچا دکھانے کا موقع۔ بھارت اور اسرائیل جیسے ممالک کانگریس میں موثر لابنگ رکھتے ہیں، اس لئے ان کے خلاف اس قسم کی واردات نہیں ہو سکتی۔ امریکہ یا امریکی کانگریس میں لابنگ ایک بے حد موثر ہتھیار ہے، جو اسے سلیقے سے استعمال کر سکے۔ امریکی کانگریس اس کے لئے کوئی مشکل پیدا نہیں کرتی یا پیدا نہیں کر سکتی۔
مونسانتو ایک بہت بڑی کمپنی ہے جو جینیاتی رد و بدل سے اجناس (اور اب تو جانور بھی) پیدا کرتی ہے۔ کہتے ہیں اس سے پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس طرح کی پیدا کردہ اجناس وغیرہ کو GMO کہا جاتا ہے۔ امریکی غذائی سائنس دان اس عمل کے خلاف ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس طرح جینیاتی تبدیلی سے پیدا کردہ غذائی اشیاء صحت کے لئے مضر ہیں، بلکہ بعض کے نزدیک کینسر کا سبب بنتی ہیں۔ مونسانتو نے امریکہ سے باہر ترقی پذیر ممالک کو بھی اس کا نشانہ بنا رکھا ہے۔ بھارت میں کثرت سے جینیاتی تبدیل شدہ اجناس وغیرہ پیدا کی جا رہی ہے۔ پاکستان میں بھی اس کے بیج درآمد کئے جاتے ہیں۔ ان بیجوں کا کمال یہ ہے کہ یہ صرف ایک فصل دیتے ہیں، اگلی فصل کے لئے اپنے بیج محفوظ نہیں رکھے جا سکتے، جیسا ہمارے ہاں کسانوں کا طریقہ کار رہا ہے۔ ہر فصل کے لئے نئے بیجوں کی خرید ایک اچھا کاروبار ہے اور مونسانتو اور اس کے ذیلی ادارے اس سے خوب کما رہے ہیں۔
امریکی عوام اور غذائی سائنس کے ماہرین مخالفت کے باوجود جینیاتی تبدیل شدہ اجناس کو بند کرانے میں ناکام ہیں۔ بالآخر انہوں نے اپنا مطالبہ صرف اس حد تک محدود کر لیا کہ اگر کسی کھانے پینے کی چیزمیں GMOشامل ہو تو اس پر واضح طور پر لکھا ہونا چاہیے، تاکہ جو اسے بے ضرر سمجھتے ہیں، وہ بخوشی خرید لیں اور جو اس سے بچنا چاہیں، وہ نہ خریدیں۔ کانگریس میں کئی دفعہ کی کوششوں کے باوجود یہ بل پاس نہیں ہو سکا۔ کیوں؟ اس لئے کہ مونسانتو کی لابنگ بہت طاقتور ہے۔ ہماری لابنگ کمزور یا غیر موثر کیوں ہے۔ اول تو ہم اس پر توجہ ہی نہیں دیتے۔ بہت معمولی یا معمول کی لابنگ سے غیر معمولی نتائج حاصل نہیں ہو سکتے۔ اس کے علاوہ بھی کچھ امور ہیں جو ہمارے بس سے باہر ہیں۔ مجھے کشمیر سے جذباتی وابستگی ہے ایک بار میں نے کشمیر سینٹر نیویارک کے ڈائریکٹر جناب شاہین بٹ سے شکایت کی کہ آپ لوگ کشمیر کے سلسلے میں موثر لابنگ کرنے میں ناکام ہیں۔ انہوں نے کہا جی آپ درست فرماتے ہیں۔ اس میں ہماری کمزوری کو بھی دخل حاصل ہے، لیکن ایک واضح فرق بھی ہے۔ ہم کسی امریکی کانگریس مین یا سینیٹر کو دعوت دیتے ہیں، وہ آتا ہے ، ہم اسے اچھا کھانا کھلاتے ہیں، اس کے ساتھ گپ شپ کرتے ہیں اور نیک تمناؤں کے ساتھ اسے رخصت کر دیتے ہیں۔ دوسری طرف بھارتی انہیں کھانے پر مدعو کرتے ہیں، کھانے کے ساتھ شراب بھی ہوتی ہے۔ آخر میں میزبان کی بیٹی مہمان کے سامنے کتھک ڈانس بھی پیش کرتی ہے اور میزبان کی بیوی مہمان کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر رقص بھی کرتی ہے۔ آپ بتائیں کون سی لابنگ زیادہ موثر ہوگی؟
ہمارے ہاں اب سینٹ اور صدر باراک اوباما سے توقع وابستہ کر لی گئی ہے۔ کیا صدر باراک اوباما سینٹ کو آمادہ کر لیں گے۔ شائد کر ہی لیں، لیکن بہت مشکل ہے۔ اگر پاکستان کے لئے لابنگ کرنے والے حکام صرف دوری پبلیکن سینیٹرز میکین اور لبرمین کو شیشے میں اتار سکیں تو سینٹ پاکستان کے حق میں فیصلہ کر سکتی ہے۔ وگرنہ بے حد مشکل ہے۔ یوں بھی امریکی کانگریس کے سامنے یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ امریکی سیاسیات میں نہ تو پاناما لیکس کوئی گرم موضوع ہے، نہ پاکستان کی امداد۔ وہاں سکولوں کے باتھ رومز کا مسئلہ اس وقت گرما گرم موضوع ہے۔ گزشتہ دنوں صدر باراک اوباما کی ہدایت پر ایک ہدایت نامہ جاری کیا گیا ، جس میں تعلیمی اداروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ باتھ رومز میں امتیازی سلوک روا نہ رکھا جائے، جس کا مطلب یہ ہے کہ مخلوط الجنس (Transgender) جس باتھ روم کو استعمال کرنا چاہیں وہ کر سکتے ہیں۔ کچھ لڑکے خود کو لڑکی سمجھتے ہیں اور تمام امور لڑکیوں کی طرح انجام دیتے ہیں انہیں مردوں کے باتھ روم استعمال کرنے میں اُلجھن ہوتی ہے۔ لیکن انہیں خواتین کے باتھ رومز استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوتی بلکہ پکڑے جائیں تو سزا بھی ہو جاتی ہے۔ اس لئے صدر کی ہدایت پر تعلیمی اداروں کو وزارتِ تعلیم اور وزارت قانون کی طرف سے خط بھیجا گیا ہے کہ ایسے طلبہ سے امتیازی سلوک بند ہونا چاہئے۔ ریاست نارتھ کیرو لینا اور وفاقی حکومت میں اس سلسلے میں پھڈا پڑ چکا ہے۔ ریاست کے گورنر اس قانون کے مقابل ڈٹ گئے ہیں جبکہ سرکاری یونیورسٹی نظام کے حکام نے وفاقی قانون پر عمل درآمد کرنے کی حمایت کی ہے اگرچہ اس خط میں کوئی قانون کسی کو پابند نہیں کرتا اور ہدایات کے پیچھے کوئی قوتِ نافذہ موجود نہیں ہے۔ لیکن اس کے جاری ہوتے ہی ایک ہنگامہ برپا ہو گیا ہے۔ نارتھ کیرولینا کے گورنر پیکٹ میکروری نے ان ہدایات کی سختی سے مخالفت کرتے ہوئے امریکی کانگریس سے استدعا کی ہے کہ وہ اس معاملے پر غور کرے۔
اس ہدایت نامے کی وجہ سے وفاق اور ریاستوں میں مقدمے بازی بھی ہوتی نظر آ رہی ہے۔ گورنر میکروری کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت بہت محنت کر کے ایک حل کے نام پر ایک مسئلہ کھڑا کر رہی ہے یہ معاملہ مقامی سکولوں، بورڈ آف ایجوکیشن وغیرہ کو حل کرنا چاہئے اور یہ کہ قانون سازی کا اختیار کانگریس کے پاس ہے انتظامیہ غیر آئینی طور پر اپنے اختیارات سے تجاوز کر رہی ہے۔ جبکہ وزارتِ تعلیم اور وزارتِ قانون بار بار یہ کہہ رہی ہے کہ وہ تعلیمی ادارے جنہیں وفاق فنڈز دیتا ہے وہاں وفاق کے قانون امتناع امتیاز پر عمل کرتے ہوئے مخلوط الجنس طلبہ سے امتیازی سلوک نہیں ہونا چاہئے۔
ٹیکساس کے نائب گورنر ڈان پیٹرک کا کہنا ہے کہ اوباما انتظامیہ ’’بلیک میل‘‘ کر رہی ہے انہوں نے اس ہدایت نامے کو ’’سوشل انجینئرنگ‘‘ قرار دیا ہے۔ ڈان پیٹرک نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا ہے کہ امریکی خاندان اسے ہرگز قبول نہیں کریں گے۔ مسس سپی کے گورنر فل برائنٹ نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں اس ہدایت نامے کو ’’اشتعال انگیز‘‘ قرار دیا ہے اور اپنی ریاست کے تعلیمی اداروں سے کہا ہے کہ اس ہدایت نامے کی کوئی پروا نہ کی جائے۔ برائنٹ نے کہا ہے کہ اس ہدایت نامے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے اور یہ معاملات ریاست کے اختیار میں آتے ہیں۔ مسس سپی کے سرکاری تعلیمی اداروں کو صدر کے ’’سماجی تجربات‘‘ میں شرکت سے گریز کرنا چاہئے۔
حال ہی میں صدارتی امیدواری کی دوڑ چھوڑ جانے والے ٹیکساس کے ری پبلیکن سینٹر ٹیڈ کروزنے اس پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے صدر باراک اوباما کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ٹیڈ کروز کہتا ہے کہ امریکی عوام کو اب یقین ہو چلا ہے کہ صدر باراک اوباما جو کچھ جمہوری طریق کار (کانگریس کے ذریعے) سے حاصل نہیں کر پاتے اسے اپنے انتظامی اختیارات کے ذریعے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ ری پبلیکنز صدر باراک اوباما پر عام طور پر یہ الزامات لگاتے ہیں کہ انہوں نے اکثر اقدامات ’’شاہی فرمان‘‘ کے ذریعے انجام دیئے ہیں۔ ٹیڈ کروز کا کہنا ہے کہ انہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوالے سے ذاتی طور پر تجربہ ہے کہ چھوٹے بچوں اور بچیوں کے ساتھ جنسی دست درازی کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ اس ہدایت نامے کے تحت ہم مردوں یا لڑکوں کو بچیوں کے باتھ روم میں جانے کا حق دے کر اس جرم میں اضافے کا سبب بنیں گے۔
دوسری طرف ہم جنس پرستوں کی بے حد طاقت ور اور مؤثر تنظیم ایل جی بی ٹی نے اس ہدایت نامے کو سراہا ہے اور کہا ہے کہ اسے قانونی شکل دی جائے ہیومن رائٹس کمپین کے صدر چاڈ گرفن نے کہا ہے کہ اس بات کی ضمانت لازمی ہے کہ سرکاری سکولوں میں مخلوط الجنس طلبہ سے امتیازی سلوک نہیں ہونا چاہئے۔ اس ہدایت نامے میں صرف باتھ رومز ہی نہیں آتے لاکر رومز اور وہ تمام مقامات جہاں طلبہ و طالبات کو الگ الگ سہولتیں فراہم ہوتی ہیں اس حکم نامے میں شامل ہیں اور جو طلبہ جیسا محسوس کرتے ہوں انہیں اسی زمرے میں شمار کر کے انہیں اسی زنانہ ، مردانہ سیکشن کو استعمال کرنے کی اجازت ہونا چاہئے۔
جب امریکہ جیسا بڑا ملک ایسے ایسے معاملات میں اُلجھا ہوا ہو تو پھر کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ پانامالیکس یا پاکستان کی امداد پر غور کر سکتا ہے۔ گویا امریکہ کے لئے اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا۔