توران کے متعلق جغرافیہ خلافت مشرقی باب سی میں درج ہے کہ :
”دریائے ا کس(جیحون) فارسی بولنے والی قوموں اور ترکوں کے درمیان یعنی ایران و توران کے درمیان ایک حد فاصل مانا جاتا تھا۔“
تمدن ہند کے مصنف گستاولی بان لکھتا ہے کہ:
”لفظ تورانی سے دراصل وہ اقوام مراد ہیں جو ترکستان کے باشندے ہیں۔“
تاریخ ابن خلدون حصہ ششم، غزنوی اور غوری سلاطین، اردو ترجمہ علامہ حکیم احمد حسین الہ آبادی صفحہ۹۴۲ پر سلطان محمود کے نسب کے بارے میں یوں درج ہے کہ:
شجاع قوم پٹھان کی تاریخی داستان، قسط نمبر 55پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
”سلطان محمود حکومت فارس کے آخری بادشاہ یزدجرد(یایزدگرد) کی نسل سے تھا۔ ابوالقاسم حمادی نے تاریخ مجدوں میں لکھا ہے کہ امیر سبکتگین محمود کا باپ، یزدجرد کی نسل سے تھا۔ جس وقت زمانہ خلافت امیر المومنین عثمان ؓ میںیزدجرد مقام مرد میں ایک چکی پیسنے والے کے مکان میں مارا گیا۔ اس کے اہل و عیال اور خاندان بحال پریشان ترکستان چلے آئے اور ضرورت اور زمانہ کے لحاظ سے ان سے اور ترکوں سے باہم رشتہ داریاں اور قرابت پیدا ہوگئی۔ دو چارپشت کے بعد علم و دولت منقود ہونے کی وجہ سے ترک کے نام سے مشہورہوگئے ایک مدت تک ان اطراف میں ان کے عالیشان مکانات ان کے بزرگوں کے نام کو زندہ کئے ہوئے تھے۔ اس کا سلسلہ نسب یزدجرد تک اس طرح سے پہنچتا ہے کہ محمود بن سبکتگین بن جوق قرابحکم بن قرارسلان بن قراملت بن قرانعمان بن فیروزبن یزدجرد بادشاہ فارس۔“
سلاطین غزنوی
الپتگین ، سبکتگین، محمود غزنوی، مسعود بن محمود، محمد بن محمود، مودودبن مسعود، مسعود ثانی بن مودود، علی بن مسعود، عبدالرشید بن محمود، فرخ زاد بن عبدالرشید، ابراہیم بن مسعودثانی، مسعود ثالث بن ابراہیم، شیرزاد بن مسعود ثالث، ارسلان شاہ بن مسعود ثالث، بہرام شاہ بن مسعود ثالث، خسرو شاہ بن بہرام شاہ، خسروملک بن خسرو شاہ آخری تاجدار۔
آگے ایک دلچسپ واقعہ مذکورہ ابن خلدون کے صفحہ ۲۶۲ پر یوں درج ہے کہ
”کہ سلطان محمود نے ایک بار خلیفہ عباسی قادر باللہ کی خدمت میں عرضداشت بھیجی کہ چونکہ اکثر بلاد خرامان میرے قبضے میں ہیں اور فلاں فلاں شہروں پر خلافت مآب(یعنی آپ) قابض ہیں۔ بنظر سہولت انتظام مملکت ان شہروں کو اس خانہ زاد کو (یعنی) مجھے عنایت فرمائیں۔ خلیفہ عباسی نے اس درخواست کو منظور فرما کر فرمان شاہی بھیج دیا۔ دوبارہ سلطان محمود نے اسی قسم کی درخواست سمرقند کی بابت بھیجی۔ خلیفہ عباسی درخواست دیکھتے ہی برہم ہوگیا اور لکھا بھیجا کہ ”معاذ اللہ میں اس درخواست کو منظور نہ کروں گا اور اگر تم بغیر میری اجازت اس طرف قدم بڑھاﺅ گے تومیں تم پردنیا کو تنگ کر دوں گا۔“ سلطان محمود کے تیور اس جواب سے چڑھ گئے۔
ایلچی سے ترش رو ہوکر بولا ”جا خلیفہ سے کہہ دے کر سمرقند کے نہ دینے کا خمیازہ برا ہوگا۔ کیا آپ کا مقصد یہ ہے کہ میں ایک ہزار ہاتھی لے کر درالخلافت بغداد پر چڑھ آﺅں اور اسے ویران کرکے اس کی خاک ہاتھیوں پر بار کر کے غزنی لاﺅں“ ایک مدت کے بعد دربار خلافت سے ایلچی واپس آیا اور سلطان محمود کو ایک خط سربمہر دیا۔ خواجہ ابو نصر زوزنی نے خط کھولا۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بعد الف، لام ، میم لکھا ہوا تھا اور آخر میں الحمد للہ رب العالمین و الصلوة علی رسول محمد و صحابہ اجمعین تحریر تھا۔ سوائے اس کے اور کچھ نہیں لکھا تھا۔ سلطان محمود اور اس کے درباری امراء، وزراءکاتب دنگ رہ گئے ۔ کسی کی سمجھ میں نہ آیا ابوبکر ہمدانی افغان نے جو ابھی کسی امتیازی درجہ پر نہیں پہنچا تھا ۔ عرض کی کہ چونکہ سلطان نے بغداد کی پامالی کی دھمکی دی تھی ،خلیفہ عباسی سورہ الم تر کیف فعل ربک با اصحاب الفیل کی طرف جواب میں اشارہ کیا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ نے ابرہہ اصحاب فیل کا کیا تھا وہی نتیجہ بغداد پر ہاتھیوں کی فوج کشی سے تمہارا دیکھنے میں آئے گا۔ سلطان محمود اس جواب سے بیحد متاثر ہوا۔ معذرت کا عریضہ لکھا اور تحائف کے ساتھ ایلچی کو رخصت کیا۔ سلطان محمود کی پیدائش دسویں محرم ۱۲۳ ھ اور وفات ۱۲۴ ھ ہے۔“
الغرض یزدگردکے قتل کے بعد ماہویہ سوری نے مزید طاقت پکڑی اوراپنی تمام قوم کے ساتھ وہ مسلمان ہو کر عربوں کا پورا اعتماد حاصل کر لیا تھا۔ اپنی فوجی قوت کو از سر نو مرتب کیا اور عربوں کی حمایت میں ہرجنگ میں وہ شامل ہوتا۔ مسلمانوں کے لئے ”مرد“ ایک اہم اور مضبوط مقام بن گیا۔
جاری ہے، اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
پٹھانوں کی تاریخ پر لکھی گئی کتب میں سے ”تذکرہ“ ایک منفرد اور جامع مگر سادہ زبان میں مکمل تحقیق کا درجہ رکھتی ہے۔خان روشن خان نے اسکا پہلا ایڈیشن 1980 میں شائع کیا تھا۔یہ کتاب بعد ازاں پٹھانوں میں بے حد مقبول ہوئی جس سے معلوم ہوا کہ پٹھان بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے آباو اجداد اسلام پسند تھے ۔ان کی تحقیق کے مطابق امہات المومنین میں سے حضرت صفیہؓ بھی پٹھان قوم سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہودیت سے عیسایت اور پھر دین محمدیﷺ تک ایمان کاسفرکرنے والی اس شجاع ،حریت پسند اور حق گو قوم نے صدیوں تک اپنی شناخت پر آنچ نہیں آنے دی ۔ پٹھانوں کی تاریخ و تمدن پر خان روشن خان کی تحقیقی کتاب تذکرہ کے چیدہ چیدہ ابواب ڈیلی پاکستان آن لائن میں شائع کئے جارہے ہیں تاکہ نئی نسل اور اہل علم کو پٹھانوں کی اصلیت اور انکے مزاج کا ادراک ہوسکے۔