کیا پاکستان میں احتساب ممکن ہے؟
پاکستان میں بد عنوانی کا دائرہ اتنا پھیل گیا ہے کہ یہاں احتساب کے ذریعے اسے کنٹرول کرنا مجھے تو ممکن نظر نہیں آتا، کرشمے کی بات اور ہے وگرنہ جس اینٹ کو اٹھاؤ نیچے سے بد عنوانی کے پہاڑ نکل آتے ہیں، جس طرح کینسر اگر پھیل جائے تو اس کا آپریشن نہیں ہوسکتا، اسی طرح کرپشن اگر نس نس میں سرایت کر جائے تو اس کا خاتمہ آسان کام نہیں، اکیلا نیب اس عفریت پر کیسے قابو پاسکتاہے؟ ایک کیس پر کام شروع ہوتا ہے تو مہینوں بلکہ برسوں میں اس کی تفتیش ہی مکمل نہیں ہوتی، دعوے بہت بڑے بڑے کئے جاتے ہیں مگر عملاً کچھ ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ نیب کے قانون میں یہ شق رکھی گئی ہے کہ تیس دن میں تفتیش مکمل کرکے چالان پیش کردیا جائے گا، اور عدالت فوری فیصلہ دے گی، یہاں یہ عالم ہے کہ سپریم کورٹ نے نواز شریف کے خلاف مقدمات کے لئے 6 ماہ کا وقت دیا، جس میں دوبارہ توسیع دی جاچکی ہے، مگر کیس ہے کہ مکمل ہونے میں نہیں آرہا، اب اتنے ہائی پروفائل کیس میں جسے بروقت مکمل کرنے کے لئے ملک کی سب سے بڑی عدالت نے حکم دیا، اگر نیب اور نیب عدالت کی کارکردگی یہ ہے تو عام کیسوں میں کیا بنتا ہوگا۔ حال ہی میں سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کے خلاف نیب کو انکوائری کا حکم دیا ہے، چیئرمین نیب نے اس پر تین ماہ میں انکوائری کرکے رپورٹ کرنے کا حکم جاری کردیا ہے، تین ماہ بعد کسی کو یاد بھی نہیں رہنا کہ کوئی حکم جاری کیا گیا تھا، یہ تو ان کیسوں کی بات ہورہی ہے جن میں سپریم کورٹ کے احکامات شامل ہیں، عام کیسوں میں کیا ہوتا ہے، یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔
پانامہ کیس میں 450 سے زائد لوگوں کا ذکر تھا، احتساب صرف نواز شریف کا شروع ہوا، ابھی تک دوسرے لوگوں پر ہاتھ ہی نہیں ڈالا گیا، ظاہر ہے اس کی وجہ احتساب بیورو کی کمزوری ہی ہوسکتی ہے یا پھر اس کے پاس اتنا بڑا عملہ نہیں کہ وہ اتنے بڑے پیمانے پر پھیلی ہوئی کرپشن کا نوٹس لے سکے، پاکستان میں احتساب کی تھوڑی بہت دھاک صرف اس لئے بیٹھی ہے کہ ایک سابق وزیراعظم کا احتساب ہورہا ہے، اس سے اندازہ لگایا جارہا ہے کہ ملک میں احتساب کا عمل زور و شور سے جاری ہے، کون سا زور و شور، یہاں تو کچھوے کی رفتار سے معاملات آگے بڑھ رہے ہیں، احد چیمہ 90 دن نیب کے پاس ریمانڈ پر رہتا ہے ابھی تک اس کے خلاف کوئی ریفرنس تیار نہیں کیا جاسکا، بڑے بڑے دعوے ضرور کئے گئے، جس رفتار سے احتساب ہورہا ہے اس سے توصاف لگتا ہے کہ نتیجہ آتے آتے کئی دہائیاں لگ جائیں گی، کیا یہ ضروری نہیں کہ جس بڑے پیمانے پر ملک میں کرپشن موجود ہے، نیب کے ادارے کو اتنی ہی توسیع دی جائے، عدالتوں میں لاکھوں مقدمات کی موجودگی کا جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ ملک میں ججوں کی تعداد بہت کم ہے، تعداد بڑھائی جائے تو جلد فیصلے بھی ہوسکیں گے، اسی طرح کی صورت حال نیب کی ہے، مقدمات اتنے زیادہ ہیں یا تفتیش کے لئے کیسز اتنے زیادہ زیرالتواء ہیں کہ باری آتے آتے عرصہ لگ جائے گا، اس طرح تو بات بنتی نظر نہیں آتی، ایک طرف کرپشن کا اژدھا ہر طرف منہ کھولے کھڑا ہے اور دوسری طرف نیب بے چارہ اکیلا اس سے نمٹنے کی کوشش کررہا ہے، یہ بیل تو منڈھے نہیں چڑھ سکتی۔
کیا دنیا میں کہیں اور بھی یہ مثال موجود ہے کہ کسی ایک ادارے نے ملک بھر میں کرپشن ختم کردی ہو، کیا یہ ممکن ہے کہ ہر محکمہ کرپشن کرے اسے محکمے کے اندر پوچھنے والا کوئی نہ ہو اور صرف نیب کے ذریعے اس کی کرپشن ختم کرنے کا ڈول ڈالا جاسکے، میرا نہیں خیال کہ ایسا عملاً ممکن ہے، یہ کیا ماجرا ہے کہ ہم نے ہر محکمے میں سے خود کار احتساب کا نظام ختم کردیا ہے اور یہ توقع باندھ لی ہے کہ نیب اس پر قابو پالے گا، حیرت ہوتی ہے کہ کسی محکمے کا کوئی افسر اربوں روپے کی کرپشن کرتا چلا جاتا ہے اور محکمہ اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا، اب اس کے اثاثے چلا چلا کر کہتے ہیں کہ وہ اس کی کرپشن کا ثبوت ہیں تو نیب اسے زائد اثاثے رکھنے کا نوٹس جاری کردیتا ہے، بلوچستان میں سیکرٹری فنانس کروڑوں روپے لوٹ کر گھر میں رکھ لیتا ہے، محکمے یا حکومت کو اس کی خبر تک نہیں ہوتی، ہاتھ ڈالتا ہے تو نیب اور پھر اس کے گھر سے نوٹوں کا خزانہ نکل آتا ہے، ہر سال وفاقی و صوبائی بجٹوں میں اربوں روپے ترقیاتی منصوبوں کے نام پر رکھے جاتے ہیں ابھی کل ہی سندھ اسمبلی میں ایک اپوزیشن رکن سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ سے کہہ رہے تھے کہ وہ پچھلے سال ترقیاتی کاموں کے لئے رکھے گئے پندرہ سو ارب کا حساب دیں، کراچی میں تو لگتا ہے ایک پیسہ خرچ نہیں کیا گیا، کیونکہ اس کی پسماندگی اور بری حالت چلا چلا کر کہہ رہی ہے کہ مجھے لوٹا گیا ہے، اب ظاہر ہے اس فنڈ کے حوالے سے کاغذوں کا پیٹ تو بھر لیا گیا ہوگا، ان کا خرچ بھی بتا دیا گیا ہوگا، مگر جو اس معاملے میں کرپشن ہوئی ہے اس کا حساب کون لے گا، کون دے گا، سب جانتے ہیں کہ نیب تھوڑی دیر کے لئے پھڑ پھڑاتا ہے، پھر تھکے ہوئے پرندے کی طرح بیٹھ جاتا ہے، اسی سندھ میں نیب نے ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری پر کتنے بلند بانگ دعوے کئے تھے، سینکڑوں ارب روپے کی کرپشن کے قصے سنائے تھے، مگر کتنے سال بیت گئے نہ کرپشن کی دولت واپس آئی اور نہ ہی ڈاکٹر عاصم حسین کا بال بیکا ہوسکا، جہاں کھربو ں روپے کی کرپشن ہوئی ہو اور سلسلہ اب بھی جاری ہو، وہاں نیب چند ارب روپے کی پلی بارگین کے ذریعے وصولی کو اپنا کارنامہ بناکر پیش کرتا ہے، سمندر میں چند قطرے کیا معنی رکھتے ہیں، پھر نیب نے آج تک کتنے بڑے لوگوں کو سزائیں دلائی ہیں، جسے دیکھو بس کیس چل رہا ہے، ادھر کیس جاری رہتے ہیں اور ادھر کرپشن جاری رہتی ہے، حساب برابر۔
کہنے والے صحیح کہتے ہیں کہ ہمارے سرکاری ادارے تباہ ہوگئے ہیں ایک زمانہ تھا کہ سرکاری محکموں کے اندر احتساب اور نگرانی کا خود کار نظام رائج ہوتا تھا کسی اہلکار کی جرأت نہیں ہوتی تھی کہ وہ علی الاعلان احتساب سے بے خوف ہو کر کرپشن کی گنگا بہادے، اب تو محکموں کی ناک کے نیچے کروڑوں روپے کی کرپشن ہوتی ہے، کوئی پوچھتا تک نہیں جب عقدہ کھلتا ہے تو بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے، پھر نیب میدان میں آتا ہے اور اپنے احتساب کے دراز سلسلے کو مزید دراز کردیتا ہے۔ ملتان کانسٹیبلری میں کروڑوں روپے کی کرپشن کا کیس پکڑا گیا، کسی نے نہیں پوچھا کہ افسران کی موجودگی اور ایک طے شدہ ایس او پی کے باوجود یہ سب کیسے ہوا، دو سال ہونے کو آئے ہیں ابھی یہ کیس تفتیش کے مرحلے میں ہے، لوٹ مار کرنے والے ٹرانسفر ہو کر مزے سے نوکری کررہے ہیں، اور نیب ان کی تفتیش یا تلاشی کررہا ہے، سوال یہ ہے کہ بیورو کریسی نے ڈپٹی کمشنر کو احتساب سے کیوں ماورا قرار دے رکھا ہے، وہ جو چاہے کرتا ہے اور لوٹ مار کے بعد کسی دوسرے شہر چلا جاتا ہے، نہ اس کا آڈٹ ہوتا ہے اور نہ انٹی کرپشن اس سے پوچھ گچھ کرسکتی ہے، اس کا کام اپنے ضلع میں کرپشن فری ماحول دینا ہوتا ہے، مگر کون سا ڈپٹی کمشنر ہے جو اس طرف توجہ دیتا ہے، نیب بھی پٹواریوں تک رہ جاتا ہے، حالانکہ کوئی پٹواری اپنے ضلع کے مال افسر یعنی ڈپٹی کمشنر کی آشیر باد کے بغیر ایک دھیلے کی کرپشن نہیں کر سکتا۔ اگر کوئی پٹواری کروڑ پتی بنتا ہے تو اُس نے لازماً اپنے ڈپٹی کمشنرز کو ارب پتی بنایا ہو گا۔ نیب نے آج تک کتنے ڈپٹی کمشنر گرفتار کئے ہیں یا اُن کے خلاف تفتیش کی ہے۔بیورو کریسی کا سب سے مضبوط اور بااختیار عہدہ نیب کی دسترس سے گویا باہر ہے، اگر وہ احتساب سے ماورا ہے تو ضلعوں میں کرپشن کیسے ختم ہو سکتی ہے۔
چیئرمین نیب جسٹس(ر) جاوید اقبال بڑے پُرعزم ہیں کہ انہوں نے کرپشن ختم کرنی ہے اُن کے اِس عزم کی تعریف کی جا سکتی ہے، کیونکہ کوئی بھی بڑا کام کرنے کے لئے پہلے عزم پیدا کرنا پڑتا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ جس رفتار سے احتساب کا نظام چل رہا ہے اُس کی موجودگی میں کرپشن کا عفریت ختم ہو سکتا ہے۔ احتساب آرڈیننس میں جو مدت لکھی گئی ہے، اُس پر سختی سے عملدرآمد کیوں نہیں کیا جاتا۔اگر مین پاور کم ہے تو اسے بڑھانے کے لئے حکومت سے وسائل کیوں نہیں مانگے جاتے؟ ہر روز خبر آ جاتی ہے کہ نیب نے فلاں فلاں شخص کے خلاف انکوائری کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے، مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ اتنی انکوائریاں مکمل ہو گئی ہیں اور اُن کے چالان احتساب عدالتوں میں بھجوا دیئے گئے ہیں۔ احتساب عدالتوں کے بھی اعداد و شمار سامنے نہیں آتے کہ وہاں کتنے کیس پینڈنگ ہیں اور کتنے فیصل ہو چکے ہیں۔ کرپشن کو ملک سے ختم کرنے کے لئے ایک بڑی جنگ کی ضرورت ہے۔ آج کل سیاسی جماعتیں اپنے انتخابی منشور پیش کر رہی ہیں، سب اس بات کو ضرور شامل کریں گی کہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ کیا جائے گا۔ پی ٹی آئی کی طرح نیب کو آزادانہ کام کرنے کی شق بھی شامل کی جائے گی، مگر جناب کرپشن ختم کرنا صرف نیب کا کام نہیں، سرکاری محکموں کے اندر بھی ایک ایسا نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے جس کی موجودگی میں کوئی کرپٹ شخص محکمے میں رہ ہی نہ سکے۔ ظاہر ہے اس کے لئے بنیادی شرط یہ ہے کہ سرکاری محکموں میں سیاسی مداخلت اور کرپٹ عناصر کی سیاسی پشت پناہی بند کی جائے۔سب سے مشکل کام یہی ہے، کیونکہ سیاست دان اپنے ناجائز کام کرانا چاہتے ہیں اور کسی ایماندار افسر کو پسند ہی نہیں کرتے۔کوئی غیر جانبداری سے حالات پر نظر ڈالے تو یہ ماننے پر مجبور ہو جائے گا کہ پاکستان میں احتساب ممکن نہیں ہے۔یہ کینسر بہت دور تک ہمارے نظام میں سرایت کر گیا ہے۔ اس کا خاتمہ اکیلے نیب کے بس کا روک نہیں، جب تک پورے دفتری و