گھڑ سوار سے ائر کیولری تک
کل کے کالم میں انڈین آرمی کی طرف سے ائرکیولری کانسپٹ (Concept) کی مشقوں کا ذکر کیا گیا تھا جو راجستھان کے علاقے میں کی جا رہی ہیں۔ اس تصورِ جنگ کا تجربہ امریکہ نے ویت نام کی جنگ (1955ء تا1975ء) میں 45،50سال پہلے کیا تھا جس میں اپنے 60ہزار آفیسرز اور جوان مروا لئے تھے اور تین لاکھ زخمی کروائے تھے جن میں آدھے عمر بھر کے لئے اپاہج ہو گئے تھے۔ انڈین آرمی اگر پاکستان کو نظر میں رکھ کر اس کانسپٹ کو دوبارہ آزما رہی ہے تو چشمِ ما روشن اور دلِ ماشاد۔۔۔ ہندو سورمے اپاہج ہوں گے تو تب ہی اس قوم کی آنکھیں کھلیں گی!۔۔۔اس ’’ائرکیولری تصور‘‘ کا لب لباب یہ ہے کہ اس میں گن شپ ہیلی کاپٹر استعمال کئے جاتے ہیں جن پر چھوٹے ہتھیاروں سے کی گئی فائرنگ بے اثر ہوتی ہے۔ انڈین آرمی نے ان گن شپ ہیلی کاپٹروں کے ساتھ اپنے ٹینکوں اور میکانائزڈ گاڑیوں (بکتر بند مشینی گاڑیوں) کو ملا کر پاکستان (اور چین) پر اٹیک کرنے کے پلان بنائے ہیں۔ یہ ایک جدید تصورِ حرب خیال کیا جاتا ہے جس میں دشمن کو گراؤنڈ معرکوں میں فضا اور زمین سے بکتر بند ہیلی کاپٹروں اور ٹینکوں سے نشانہ بنایا جاتا ہے۔۔۔افغان جہاد میں پہلے روس نے 1980ء کے عشرے میں اور پھر امریکہ نے گزشتہ 17،18برسوں میں اس کانسپٹ کو آزمایا ہے اور ناکامی کا سامنا کیا ہے:
راجستھان میں ایک شہر کا نام سورت گڑھ ہے۔ وہاں جنگی مشقوں کے لئے اسی طرح کے رینجز(Ranges) بنے ہوئے ہیں جس طرح ہمارے ٹلہ رینجز اور نوشہرہ رینجز وغیرہ ہیں۔ سورت گڑھ کے ان رینجز کو ’مہاجن رینجز‘ کہاجاتا ہے۔یہاں پچھلے دنوں انڈین آرمی کی ساؤتھ ویسٹرن کمانڈ نے امریکہ سے خریدے گئے نصف درجن اپاچی گن شپ ہیلی کاپٹروں کو آرمر (ٹینکوں اور بکتر بند مشینی دستوں) کے ساتھ استعمال کرکے اس جدید تصور کی ایکسرسائز کی ہے۔اب کسی روز انڈین آرمی چیف کی طرف سے خبر آئے گی کہ ہم نے کولڈسٹارٹ ڈاکٹرین اور سرجیکل سٹرائک کی طرح ’’ائر کیولری کانسپٹ‘‘ کو ایل او سی پر بروئے عمل لا کر اور فلاں مقام سے فلاں مقام تک نفوذ کرکے پاکستان آرمی کے بخیئے ادھیڑ کر رکھ دیئے ہیں!۔۔۔ اللہ اللہ خیر سلّا!
میرا خیال ہے کہ بعض قارئین کو شائد کیولری فورسز کے تاریخی پس منظر کا پتہ نہ ہو اس لئے اس کا ایک مختصر سا احوال سطور ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے: انسان اور گھوڑے کا ساتھ بہت پرانا ہے۔ زمانہء قدیم ہی سے گھوڑا انسان کا دمساز اور رفیق رہا ہے۔ جنگ و جدل کے ابتدائی دور سے لے کر عصر حاضر تک جنگ کے صرف دو شعبے ایسے ہیں جو ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم رہے ہیں۔ پیادہ فوج سب سے قدیم شعبہ ء جنگ ہے جس کو اہل مغرب نے انفنٹری کا نام دیا۔ انفنٹری افواجِ عالم کی گویا والدۂ محترمہ ہے جس کو عرف عام میں ’’ملکہ ء جنگ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔اسی کی کوکھ سے جنگ کے باقی شعبے بھی تولد ہوئے۔ یہ کوئین آف بیٹل(Queen of Battle) صدیوں تک میدانِ کارزار پرچھائی رہی۔ شمشیروسناں اس کے اساسی اور اولین ہتھیار تھے۔ لیکن جب انسان نے نیزہ ایجاد کیا تو گویا تلوار کی رینج پر سبقت حاصل کرلی۔ کسی کے ذہن میں اتفاقاً خیال آیا کہ کیوں نہ اس نیزے کو انفنٹری سولجر کے ہاتھ میں تھما کر اسے گھوڑے پر سوار کر دیا جائے۔۔۔ اس خیال کا آنا تھا کہ جنگ و جدال کی دنیا میں انفنٹری کے بعد ایک دوسرا بڑا شعبہ ء جنگ متعارف ہوگیا۔۔۔یہ گھڑ سوار فوج تھی!
اول اول اس گھڑ سوار فوج کو ماؤنٹڈ انفنٹری (Mounted Infantry) یعنی ’’سوارپیدل فوج ‘‘ کا نام دیا گیا۔ یہ سوار فوج چونکہ میدانِ جنگ میں خالص پیادہ فوج سے زیادہ موثر اور متحرک تھی اس لئے اس نے انفنٹری پر فوقیت پائی۔۔۔ وہ دن اور آج کا دن وہ فوقیت برقرار ہے۔پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ گھڑ سوار فوج، انفنٹری سے کہیں زیادہ مقبول ہو گئی۔ زمانہ ء قدیم میں فوج کے ’بھرتی دفتر‘ نہیں ہوا کرتے تھے۔ جس جوان کا دل چاہتا وہ گاؤں یا شہر میں کسی فوجی سے رابطہ کرتا اور اپنی جیب سے ایک تلوار اور ایک ڈھال خرید کر کسی زمیندار کا ذاتی محافظ بن جاتا۔ رفتہ رفتہ زمیندار آقاؤں کے ان فوجی ملازموں کی مانگ بڑھنے لگی۔ریاست کے حاکموں نے ان سے رابطہ کرکے زمینداری کے مقابلے میں ایک بہتر کاروبار کی طرف دعوت دی۔ یہ حکمران جب کسی دوسرے ملک کے حکمران سے جنگ کرنے نکلتے تو ان زمینداروں کے لشکر ساتھ ہوتے۔ جنگ ہوتی اور جو مالِ غنیمت ہاتھ آتا وہ ان مسلح ٹھیکے داروں میں تقسیم کر دیا جاتا۔ ساتھ ہی اس مالِ غنیمت کا ایک حصہ ان سپاہیوں کو بھی دے دیا جاتا جو جنگ میں بچ جاتے یا زخمی ہو جاتے۔۔۔ صدہا برس تک جنگ کا یہ ’’کاروبار‘‘ ایک نفع بخش کاروبار بنا رہا۔
مرزا رفیع سودا اردو کے اولین شعرا میں شمار ہوتے ہیں۔ انہوں نے ’شہر آشوب‘ کے نام سے ایک طویل نظم کہی ہے جو اردو شاعری کے ابتدائی زمانے کی ایک اہم یادگار ہے۔ یہ نظم ایک مخمس ہے یعنی ہر بند پانچ مصرعوں پر مشتمل ہے۔ اس کے کئی بند ہیں جن میں پہلے بند کا درج ذیل مکالمہ بہت دلچسپ اور اس وقت کی معاشی بدحالی اور سماجی بے روزگاری کا ترجمان ہے:
کہا میں آج یہ سودا سے کیوں تو ڈانواں ڈول
پھرے ہے جا کہیں نو کر ہو لے کر گھوڑا مول
لگا وہ کہنے یہ اس کے جواب میں دو بول
جو میں کہوں گا تو سمجھے گا تُو کہ ہے یہ ٹھٹھول
بتا کہ نوکری ملتی ہے ڈھیریوں یا تول؟
یعنی مرزا سودا کے زمانے میں بھی ایک عدد تلوار یا نیزہ اور ایک عدد گھوڑا فوج میں بھرتی ہونے کے لئے اپنی جیب سے خریدنا پڑتا تھا۔۔۔ اس گھڑ سوار فوج کا بڑا ٹہکا ہوا کرتا تھا۔ اسے رسالہ بھی کہا جاتا اور اس کے افسروں کو رسالدار کا نام دیا جاتا۔ یہ رسالہ یا گھڑ سوار فوج میدان جنگ میں بطور ہر اول شامل ہوتی اور اس کے پیچھے پیادہ فوج (انفنٹری) کا نمبر آتا۔ بالکل یہی ترتیب یورپی اور دوسرے براعظموں کی افواج میں بھی مروج رہی۔ حتیٰ کہ جب بارود ایجاد ہوا اور شمشیروسناں کی جگہ بندوق اور رائفل نے لے لی تو تب بھی اس گھڑ سوار فوج کے ہتھیار تبدیل نہ ہوئے۔ گھوڑے بھی وہی رہے اور ان کے گھڑسوار بھی وہی اور ہتھیار بھی وہی! ۔۔۔ آپ شائد یہ سن کر حیران ہوں کہ یکم ستمبر 1939ء کو جب دوسری عالمی جنگ شروع ہوئی تو دنیا بھر کی افواج میں ہزاروں لاکھوں گھوڑے اور گھڑ سوار موجود تھے۔۔۔البتہ صرف ایک ملک ایسا تھا جس کی فوج میں گھوڑے نہیں تھے۔۔۔ اس کا نام جرمنی تھا۔
پہلی عالمی جنگ جب 1918ء کے اواخر میں ختم ہوئی تھی تواس جرمن فوج کو عبرتناک شکست ہوئی تھی۔ فاتحین میں برطانیہ، فرانس اور امریکہ شامل تھے۔ ان تینوں اتحادی ملکوں نے اکٹھے ہو کر جرمنی پر ایک ایسا معاہدہ مسلط کیا جس کو تاریخ میں ’’ورسیلز معاہدہ‘‘ (Versallies Treaty) کہا جاتا ہے۔ اس معاہدے کی شرائط جرمنی کے لئے حد درجہ شرمناک تھیں۔ لیکن ہارا ہوا انسان ہو یا فوج، اس کو جیتنے والے کے سامنے سر جھکانا ہی پڑتا ہے۔ ان شرمناک شرائط میں ایک شرمناک ترین شرط یہ بھی رکھی گئی کہ جرمنی کی فوج ختم کر دی گئی۔۔۔ یعنی نہ ہوگا بانس نہ بجے گی بانسری۔
شکست خوردہ جرمنی کو حکم دیا گیا کہ وہ صرف ایک لاکھ سپاہ رکھ سکتا ہے جس میں صرف 4 ہزار آفیسرز ہوں گے اور باقی 96000سپاہی ہوں گے جن میں ہر شعبۂ جنگ (مثلاً آرٹلری، سگنلز، انجینئرز، آرڈننس اور سپلائی وغیرہ) کے سولجرز شامل ہوں گے۔ اتنی کم فوج میں گھڑ سوار فوج کی تعداد بھلا کتنی ہو سکتی تھی؟ 20ویں صدی کا یہ دوسرا عشرہ جرمنی اور جرمن افواج پر بہت سخت تھا۔ لیکن انسان کی طبعِ رسا دیکھئے کہ وہ مشکل ترین حالات میں بھی کس طرح آسانیوں کی راہیں تلاش کرلیتا ہے۔ اس ہاری ہوئی جرمن قوم میں ایک ایسا شخص بھی تھاجو اسی پہلی عالمی جنگ میں جرمن انفنٹری کا حصہ تھا۔ اس کا رینک لانس نائیک تھا جو کسی بھی فوج میں زیریں رینک ہوتا ہے اور سپاہی کے بعد دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ یہ شخص جنگ میں شدید زخمی ہو گیا تھالیکن بچ گیا تھا۔ اسے جرمن فوج کے اعلیٰ ترین دلیری کے ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔۔۔ اس کا نام اوڈلف ہٹلر تھا!
خدا کی قدرت دیکھئے کہ اس میٹرک پاس سپاہی کو اس شکست کے بعد جب جرمن فوج سے ڈسچارج کردیا گیا تو دلیری کا وہ اعلیٰ ترین میڈل بھی اس کے کسی کام نہ آسکا۔ وہ کئی برس تک کسمپرسی اور بے روزگاری کا شکار رہا۔ بعض کتب میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ وہ وی آنا (آسٹریا) کے ریلوے سٹیشن پر چھ برس تک ریل کے مسافروں کے سامان اٹھا اٹھا کر اپنا پیٹ پالتا رہا۔ لیکن غربت وافلاس کی اس دلدل میں بھی اس کا دماغ کنول کا ایک سفید پھول بن کر کھلا رہا۔ اس کے بعد وہ جرمنی کا چانسلر کیسے بنا، اس نے اپنے دشمنوں سے کیا انتقام لیا، کیسے سارے یورپ کو فتح کیا، کیسے ایک چھوٹے سے جزیرے (برطانیہ) کو یہ سمجھ کر چھوڑ دیا کہ اس کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہی۔۔۔۔ ان سوالوں کا جواب آپ کو جنگ عظیم دوم کی کئی تاریخی کتب میں پڑھنے کو ملتا ہے۔ اس عظیم جنگ پر لکھی جانے والی کتابوں کا تنانتا آج بھی بندھا ہوا ہے۔ آج بھی دنیا بھر میں ’’سیکنڈ ورلڈوار‘‘ کی ناقابل یقین اور ولولہ انگیز جنگی داستانیں منظر عام پر آکر یہ پیغام سناتی رہتی ہیں: جو ہو ذوقِ یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں!.
جیسا کہ اوپر لکھا گیا جرمنی کو صرف ایک لاکھ فوج رکھنے کی اجازت تھی۔ کوئی نیوی، کوئی ائر فورس اور کوئی میرین فورس نہیں تھی۔سب کچھ یہی 96000 سولجرز اور 4000 آفیسرز تھے۔ گھڑ سوار فوج بھی ختم کردی گئی تھی۔ لیکن انسانی دماغ کی زرخیزی دیکھئے کہ اس نے جاندار گھوڑے کی جگہ ایک مشینی گھوڑا بنالیا جسے ’’ٹینک‘‘ کہا جاتا ہے۔ گھڑسوار فوج کا نام رسالہ بھی تھا اور کیولری بھی لیکن یہ ٹینک ایک ایسا گھوڑا تھا جس نے تمام افواجِ عالم میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے گوشت پوسٹ والے گھوڑوں کا خاتمہ کردیا۔ اس طرح گھوڑے اور سولجر کا وہ ساتھ جس کی عمر ہزاروں برس تھی چھوٹ گیا۔ ستمبر1939ء میں جب دوسری عالمی جنگ شروع ہوئی تھی تو مختلف افواج میں لاکھوں کی تعداد میں کیولری افواج موجود تھیں لیکن صرف چھ برس کی قلیل مدت میں جب دوسری بار اتحادیوں کو فتح اور جرمنوں کو شکست فاش ہوئی تو 1945ء کے آتے آتے تمام گھوڑے ختم ہوگئے اور ان کی جگہ ٹینک آگئے۔ (یہ ٹینک دراصل برطانوی ایجاد تھی جس کو ہٹلر کے جرنیل گڈرین نے اوجِ کمال کو پہنچایا)۔
کیولری ایک فرانسیسی الاصل لفظ ہے جس کا مطلب گھوڑا یا گھڑ سوار سولجر ہے۔ جیسا کہ سطور گزشتہ میں ذکر کیا گیا گھڑ سوار کو پیادہ سپاہی پر تین طرح کی فوقیت حاصل تھی۔۔۔ یعنی رفتار، صدماتی اثر اور نفسیاتی برتری۔ گھڑ سوار، پیدل سولجر کے مقابلے میں ’’اونچے مقام‘‘ پر فائز ہوکے لڑتا تھا اس لئے اسے ایک قسم کا نفسیاتی تفاخر اور فوقیت بھی حاصل تھی۔ ٹینک کی ایجاد سے پہلے یورپی افواج میں گھوڑے اور گھڑ سوار کو زرہ بکتر سے لاد دیا گیا تھاجس سے اس کی رفتار (حرکیت) محدودہو گئی تھی۔ سبک رفتار کیولری افواج میں عرب، منگول اور مغل افواج نے اپنے اپنے ادوار میں بھاری بھرکم زرہ بکتر استعمال کرنے والی کیولری افواج کو پے در پے شکستوں سے دو چار کیا۔۔۔۔ آج اگر انڈین آرمی نے ائر کیولری کو آزمانے کا فیصلہ کیا ہے تو اس کو ویت نام کا انجام بھی یاد رکھنا چاہئے۔ لیکن ان بھلے مانسوں کو کون سمجھائے کہ نیو کلیئر اہلیت کا حامل کوئی بھی ملک ائر کیولری وغیرہ سے کبھی خائف نہیں ہوتا!