تتلیوں کے جگنووں کے دیس جانے والی شہزادی
امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر سانٹا فے میں اسکول فائرنگ مپں جاں بحق ہونے والوں میں کراچی سے تعلق رکھنے والی سبیکا شیخ بھی شامل تھیں۔ سبیکا شیخ کا جسدِ خاکی جب گلشنِ اقبال کراچی انکی رہائش گاہ تک پہنچا تو ایک کہرام بپا تھا ،ماں باپ کی جس شہزادی نے ستاروں پر کمند ڈالنی تھی سورج بنکر لوگوں کی زندگی میں اجالا بکھیرنا تھا۔ ایک امریکی دہشت گرد طالبان کے ہاتھوں منوں اسکو گرہن لگ گیااور وہ ڈوب گیا ۔
پوچھنے والے پوچھ سکتے ہیں کہ سیدھی سادی د ہشتگردی کے واقعے کو ذہنی مریض سے کیوں جوڑا جا رہا ہے۔ بات سیدھی سی ہے کہ جو اس طرح کا واقعہ کسی مسلمان کے ہاتھوں پیش آئے تو وہ دہشتگردی اور انتہا پسندی ہوتی ہے مگر یہی واقعہ کسی نان مسلم کے ہاتھ سر انجام دیا جائے تو یہ ذہنی اور نفسیاتی مسئلہ بن جاتا ہے ،اب تک کے معاملات کی جدیدامریکی تاریخ تو یہی بتاتی ھے۔
۔ بہت دلچسپ بات یہ کہ قاتل کو امریکی میڈیا نے عیسائی دہشتگرد اور عیسائی انتہا پسند قرار نہیں دیا۔ اگر یہ فعل کسی مسلمان لڑکے نے انجام دیا ہوتا تو اس وقت امریکی میڈیا مسلمان دہشتگرد اور مسلم انتہا پسند کی اصطلاح استعمال کرکے آسمان سر پر ا±ٹھا چکا ہوتا اور امریکہ سمیت دنیا بھر کے مسلمان گھبراہٹ اور خوف سے سہم کر رہ گئے ہوتے۔ ان کی مثال کٹہرے میں کھڑے کسی مجرم سے کم نہ ہوتی جس پر میڈیا یکطرفہ جرح کر رہا ہوتا اور وہ گردن جھکائے اپنے ناکردہ جرائم اور گناہوں کو خاموشی سے قبول کرنے پر مجبور ہوتا۔ دنیا میں جاری دہشتگردی کی وارداتوں اور انتہا پسندی کی لہروں کیساتھ یہ متضاد سلوک اور روئیے ازخود بہت سی قباحتوں اور منفی سوچوں کو جنم دینے کا باعث بن رہے ہیں
یہ دہرا رویہ پہلے بھی جنگوں کی صورت لاکھوں معصوم تتلیوں اور جگنوو¿ں کو نگل چکا ہے ارض عالم پر کہیں بھی دہشتگردی ہے اسکے پیچھے امریکہ کی وردی ہے۔پوری دنیا کے امن کا ٹھیکیدار امریکہ اپنے ملک کا داخلی سیکورٹی کی صورتحال سنبھالنے سے قاصر ہے،اسکا بس نہیں چلتا ہے کہ ان الزامات کو بھی القاعدہ اور طالبان کے سر لگا دیا جائے۔
سبیکا 21 اگست 2017 کو کراچی سے امریکہ پہنچی تھی اور اگلے مہینے یعنی 9 جون کو اسے واپس آنا تھا لیکن 22 دن پہلے اس کی موت کی خبر آگئی۔باپ کہتاہے”میری اس سے آخری بات ہوئی تو کہنے لگی بابا میں نے پچھلے ایک سال سے گھر کا کھانا نہیں کھایا بس پوٹاٹو چپس کھاکر گزارا کیا ہے۔ آپ میرے لئے سب کھانے بنوا کر رکھئے گا۔اس نے اپنی پسند کے کھانوں کی طویل فہرست مجھے اور اپنی ماں کو بھیجی تھی۔ہم لوگ اس کی واپسی کے منتظر تھے اور گھر میں تیاریاں چل رہی تھیں لیکن ہماری تیاریوں سے پہلے سبییکا آخری سفر کی تیاری کر بیٹھی“
دہشتگردی کے شکار ملک سے سبیکا کی ہجرت تعلیم حاصل کرنے کے لیئے تھی۔ اس عمر کی بچی کے لیئے مائیں خواب بننا شروع کر دیتی ہیں اور باپ کی ذمّہ داری بھی یکدم بڑھ جاتی ہے۔ مگر اپنی شہزادی کی خواہشات کو اولیت دیتے ہوئے اسے اپنے تئیں ایک محفوظ ملک امریکہ بھیج دیا جو اعلیٰ اقدار رکھنے والا ملک ہے۔ کیا ہوا جو ڈونلڈ ٹرمپ کو صدر منتخب کیا ہے۔مگر اس محفوظ ملک میں ہماری سبیکا شیخ ماں باپ کی لاڈلی غیر محفوظ ہوگئی اور دوسرے بچوں کے ساتھ لقمہ اجل بن گئی اور اہلِ خانہ کو نہ ختم ہونے والا دکھ دے گئی۔
میری آنکھیں نم ہوتی جارہی ہیں دور کہیں نیرہ نور کی آواز سنائی دے رہی ہے
کبھی ہم بھی خوبصورت تھے
کتابوں میں بسی
خوشبو کی صورت
سانس ساکن تھی
بہت سے ان کہے لفظوں سے
تصویریں بناتے تھے
پرندوں کے پروں پر نظم لکھ کر
دور کی جھیلوں میں بسنے والے
لوگوں کو سناتے تھے
جو ہم سے دور تھے
لیکن ہمارے پاس رہتے تھے
نئے دن کی مسافت
جب کرن کے ساتھ
آنگن میں اترتی تھی
تو ہم کہتے تھے
امی تتلیوں کے پر
بہت ہی خوبصورت ہیں
ہمیں ماتھے پہ بوسا دو
کہ ہم کو تتلیوں کے
جگنوؤں کے دیس جانا ہے
ہمیں رنگوں کے جگنو
روشنی کی تتلیاں آواز دیتی ہیں
نئے دن کی مسافت
رنگ میں ڈوبی ہوا کے ساتھ
کھڑکی سے بلاتی ہے
ہمیں ماتھے پہ بوسا دو
ہمیں ماتھے پہ بوسا دو
۔۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔