سندھ اسمبلی کا بجٹ سیشن انتخابی بن گیا،اپوزیشن کی تمام تحاریک مسترد
کراچی (تجزیاتی رپورٹ /نعیم الدین )اپوزیشن کی پیش کردہ 23کٹوتی کی تحاریک کو مسترد کرتے ہوئے حکومت نے مالی سال 2017-18کا ضمنی بجٹ منظور کرلیا ہے ۔بجٹ پر بحث سمیٹتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ نے ایوان میں جو تقریر کی ہے اس کو ایک انتخابی تقریر سے تعبیر کیا جاسکتا ہے ۔انہوں نے نئے صوبے کا مطالبہ کرنے والوں پر باقاعدہ لعنت بھیجتے ہوئے کراچی کے امن کو پیپلزپارٹی کا کارنامہ قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ اس پانچ سالہ دور میں سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں میں یکساں طور پر ترقی ہوئی ہے۔سندھ اسمبلی کی تاریخ میں 108 دن کی بیٹھک ہوئی ہے، ہم جب اپوزیشن تھے تو 25 بل جمع کرواتے تھے لیکن انٹروڈکشن سے آگے نہیں گئے، اس زمانے میں ایک سال میں 6 دن بھی اسمبلی بھی نہیں چلتی تھی، اپوزیشن کے صرف دو ریزیولوشن این ایف سی اور گریٹر تھر کینال کے خلاف پاس کیے تھے۔اس سے قبل اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحسن نے صوبائی حکومت کے آخری بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے انتہائی مایوس کن قرار دیا تھا ۔ان کا کہنا تھاکہ بجٹ کو فری ٹیکس کہا جارہا ہے لیکن گذشتہ بجٹ میں 47 سیکٹر میں ٹیکس لگایا گیا ، حکومت نے کوئی شعبہ نہیں چھوڑا ،صرف ہوا باقی رہ گئی اس پربھی ٹیکس لگا دیں ،خواجہ اظہار کا کہنا تھا کہ کراچی سے تو آپکو ووٹ ملتا نہیں اس لیئے یہاں کام نہیں کرتے لاڑکانہ سے تو ہمیشہ کامیاب ہوتے ہو وہاں کیاکام کیا۔یہاں یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں نے بجٹ کے اجلاس کے دوران ’’بجٹ‘‘ کے علاوہ ہر ایشوکو ترجیح دی ۔دونوں کے سامنے آئندہ آنے والے انتخابات ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت بجٹ ی وہ اہمیت نہیں ہے ۔آئندہ آنے والی اسمبلی اس بجٹ پر زیادہ موثر انداز میں بحث کرسکے گی کیونکہ پیپلزپارٹی کی حکومت نے صرف تین ماہ کے لیے بجٹ پیش کیا ہے اور باقی کام آئندہ حکومت کیلئے چھوڑ دیا ہے ۔وزیراعلیٰ سندھ اور اپوزیشن لیڈر کے لب و لہجے سے ظاہر ہورہا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو اسپیس دینے کے لیے تیار نہیں ہیں اور یہ معاملات آگے جاکر نگراں وزیراعلیٰ سندھ کے معاملے پر اتفاق رائے میں بھی حائل ہوں گے ۔موجودہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے یہ بات صاف ظاہر ہورہی ہے کہ آئندہ نگراں سیٹ اپ کے لیے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اتفاق رائے کا ہوجا نا خام خیالی ہی ہوگا اور بالآخر معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس ہی جائے گا ۔کچھ ذرائع دعویٰ کررہے ہیں کہ اگر یہ معاملہ سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں سے نکل گیا تو اس کا نقصان ان کو ہی اٹھانا پڑے گا اس لیے وقت اور حالات کا تقاضہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں کسی ایسی شخصیت پر متفق ہوجائیں جوشفاف اتخابات کے لیے اپنا کردار ادا کرسکے اور اس معاملے کو اپنی انا کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے ۔