فتح کی خوشخبری جب مدینہ پہنچی تو سب مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور انہوں نے اللہ کا شکر ادا کیا ۔اب شام کا کوئی قلعہ مسلمانوں کیلئے رکاوٹ نہیں تھا۔ بازنطینی حکمران ہرقل نے جب اپنی شکست کا احوال سنا تو اپنے اہل و عیال اور سازو سامان کے ہمراہ قسطنطنیہ فرار ہوگیا اور جاتے جاتے شام کی زمین سے مخاطب ہو کر کہا :’’ اے شام! تجھے جدائی پانے والے کا سلام، تجھے الوداع کہنے والے کا سلام کیونکہ دکھائی نہیں دیتا کہ وہ کبھی لوٹ کر تیری طرف آئے گا۔کوئی رومی کبھی تیری طرف نہیں لوٹے گا، مگر ڈرتے ہوئے۔ اے شام ! تجھ پر سلام۔ کتنا اچھا ہے یہ ملک جو دشمن کے ہاتھ لگا ہے!‘‘
اب آخری قلعہ بیت المقدس تھا کہ جسے مسلمانوں کو فتح کرنا تھا۔تمام مسلمان دستے حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ اور حضرت خالد بن ولیدؓ کی قیادت میں بیت المقدس پہنچے۔ مسلمانوں نے بیت المقدس کا محاصرہ کرلیا، مگر وہاں کے لوگوں نے جان لیا تھا کہ اب جنگ محال ہے، لہذا انہوں نے امن کی شرائط طے کرنا شروع کردیں۔ انہوں نے یہ شرط عائد کی کہ حضرت عمرؓخود مدینہ سے آکر بیت المقدس کا قبضہ اپنے ہاتھ میں لیں۔مسلمانوں نے یہ شرائط تسلیم کرلیں۔
حضرت خالدبن ولیدؓ۔اسلام کے عظیم سپہ سالار کے حالات زندگی... قسط نمبر 11 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
حضرت عمرؓ ایک غلام اور اپنے اونٹ کو ساتھ لے کرمدینہ سے بیت المقدس کی جانب روانہ ہوئے۔ اسی موقع پر وہ مشہور واقعہ پیش آیا کہ آدھے راستے حضرت عمرؓ خود اونٹ پر سواری کرتے اور آدھے راستے ان کا غلام اونٹ پر سوار ہوتا اور وہ پیدل چلتے۔جب آپؓ بیت المقدس میں داخل ہوئے تو حالت یہ تھی کہ آپؓ کی پیدل چلنے کی باری تھی اور آپؓ کا غلام اونٹ پر سوار تھا۔اس شان سے مسلمانوں کے خلیفہ اور سپہ سالار اعظم ، شام اور عراق کے فاتح، بیت المقدس میں داخل ہوئے۔ عیسائیوں کی کتابوں میں بھی یہ درج تھا کہ جو شخص بیت المقدس فتح کرے گا، وہ اسی شان سے شہر میں داخل ہوگا کہ وہ پیدل اور اسکا غلام اونٹ پر سوار ہوگا۔ پھر انتہائی امن و امان سے پورا شہر حضرت عمرؓ کے حوالے کردیا گیا۔
حضرت عمرؓ ایک گرجے میں داخل ہوئے تو نماز کا وقت ہوگیا۔ پادری نے آپؓ سے کہا کہ آپ ادھر ہی نماز ادا کرلیں۔ آپؓ نے انکار فرماتے ہوئے کہا کہ آج اگر میں نے یہاں نماز ادا کرلی تو مسلمان اس گرجا گھر کو مسجد میں تبدیل کردیں گے۔ پھرحضرت عمرؓ نے گرجا گھر سے باہر آکر نماز ادا کی اور وہ جگہ کہ جہاں آپؓ نے نماز پڑھی، وہاں بعد میں مسجد کی بنیاد رکھی گئی کہ جو آج بھی مسجد عمر کے نام سے پہچانی جاتی ہے۔ کئی سوسال بعد کہ جب عیسائیوں نے صلیبی جنگوں کے دوران مسلمانوں سے بیت المقدس دوبارہ چھینا تو مسجد عمر ہی وہ مقام تھا کہ جہاں مسلمانوں کا اتنا قتل عام کیا گیا کہ مسلمانوں کا خون عیسائیوں کے گھوڑوں کے گھٹنوں تک جا پہنچا ۔
اسکے برعکس جب حضرت عمرؓ نے بیت المقدس فتح کیا تھا تو ہر شخص کو امان دے دی گئی تھی۔جن مقامی لوگوں نے قسطنطنیہ جانے کی خواہش ظاہر کی، ان کے لیے سمندر تک تمام راستوں پر پہرے بٹھا دیئے گئے تاکہ کوئی بھی ان کا مال و اسباب نہ لوٹ سکے اور نہ ہی ان کی عزت پر ہاتھ ڈال سکے۔جو امن کی شرائط کے تحت جانا چاہتے تھے،ان تمام لوگوں کو شان سے رخصت کردیاگیا۔بیت المقدس کی فتح کے بعد صرف حمص کا شہر ہی باقی بچا تھا، جوبہت جلد ہی مسلمانوں نے دوبارہ فتح کرلیا۔ حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ نے حمص کو ہی اپنا مرکز بنایا۔
حضرت عمرؓ بیت المقدس کی فتح کے بعد واپس مدینہ تشریف لے آئے۔ لیکن کچھ ہی عرصے بعد ایک اور فتنہ کھڑا ہوگیا۔رومیوں نے دو لاکھ کے لشکر کے ساتھ مصر کی طرف سے شام پر حملہ آور ہونے کی کوشش کی۔ ان کا ہدف حمص کا شہر تھا کہ جہاں حضرت خالد بن ولیدؓ اور حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ اپنے چھوٹے سے لشکر کے ساتھ قیام پذیر تھے۔ مسلمانوں میں گھبراہٹ اور پریشانی پیدا ہوگئی۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے جنگی شوریٰ طلب کی اور وہاں یہ فیصلہ کیا گیا کہ پوری سلطنت سے مدد طلب کی جائے۔ خلیفہ کو بھی خط لکھے گئے۔ یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ قلعہ بند ہو کر لڑا جائے گا۔
حضرت خالد بن ولیدؓ کے سامنے جب یہ فیصلہ رکھا گیا تو وہ جلال میں آگئے۔ آپؓ نے قسم کھائی کہ ہم کبھی بھی قلعہ بند ہو کر لڑائی نہیں کریں گے اور حضرت ابو عبیدہؓ سے اجازت مانگی کہ ہم میدان میں جا کر دشمن کا مقابلہ کریں ۔ ہم اس سے پہلے بھی بڑے بڑے لشکروں کو شکست دے چکے ہیں،یہ تو معمولی بات ہے۔ تمام شہ سواروں نے ان کی اس بات سے اتفاق کیا۔حضرت ابو عبیدہؓ نے ان کو کھلے میدان میں جانے کی اجازت دے دی، لہذا مسلمانوں نے حمص سے باہر نکل کر اپنی صفیں ترتیب دینا شروع کیں۔ حضرت خالد بن ولیدؓ کو ’’مقدمتہ الجیش‘‘ یعنی ہر اول دستے کے ساتھ آگے بھیجا گیاتا کہ آگے جا کر دشمن کی نقل و حرکت کاپتہ لگائیں۔
حضرت خالد بن ولیدؓ اپنے چھوٹے سے ہر اوّل دستے کے ساتھ صرف صورتحال کا جائزہ لینے گئے تھے، مگر پھر اس طرح دشمن پر ٹوٹ پڑے کہ دو لاکھ کے لشکر کو مٹا کر رکھ دیا۔ جب حضرت ابو عبیدہؓ دشمن سے مقابلے کے لیے صفیں ہی ترتیب دے رہے تو حضرت خالدبن ولیدؓ نے انہیں واپس آکر اطلاع دی کہ دشمن کا صفایا کیا جاچکا ہے ۔حضرت ابو عبیدہؓ اللہ کے حضور سجدے میں گر گئے اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ ’’سیف اللہ نے ایک بار پھر دین کی آبرو بچالی‘‘
حضرت خالد بن ولیدؓ نے اس کے بعد حمص میں ہی قیام فرمایا مگر نائب کمانڈر کی حیثیت سے ان کا عہدہ ابھی بھی برقرار تھا۔ آپؓ چونکہ اعلیٰ ظرف تھے، یتیموں، مسکینوں اور بیواؤں کی مدد کرنے والے تھے،لہذاآپؓ مال غنیمت میں سے اپنا حصہ بھی تقسیم کردیا کرتے ، لیکن کچھ لوگوں نے حضرت عمرؓ سے آپؓ کی شکایت کردی کہ حضرت خالدؓ مال خرچ کرنے میں اسراف کرتے ہیں۔
اس سے پہلے بھی جب حضرت خالد بن ولیدؓ کی شکایتیں حضرت عمرؓ تک پہنچی تھیں تو آپؓ نے ان کو سپہ سالاری کے عہدے سے معزول کردیا تھا۔ اس معزولی کی وجہ یہ بھی تھی کہ لوگ حضرت خالد بن ولیدؓ پر بہت زیادہ یقین کرنے لگے تھے۔ حضرت عمرؓ نے یہ سوچ کر ان کو سپہ سالاری کے عہدے سے معزول کردیا کہ کہیں اللہ پر بھروسے اور توکل میں کمی نہ آجائے۔اس مرتبہ بھی شکایت کے بعد حضرت عمرؓ نے ان کو جنگی خدمات ادا کرنے سے منع فرمایا اور مدینہ طلب کیا ،تاکہ ان سے اس معاملے پر باز پرس کی جاسکے۔ اس سے مسلمانوں میں کافی اختلاف پیدا ہوگیا، لیکن حضرت خالد بن ولیدؓ نے ہر موقع پر خلیفہ کے حکم کی اطاعت کی۔ آپؓ نے اپنی باقی زندگی حمص میں گزارنے کا فیصلہ کرلیا۔۲۱ ہجری میں آپؓ نے حمص میں ہی انتقال فرمایا۔آپؓ کے انتقال کی خبر جب مدینہ منورہ پہنچی تو ہر گھر میں کہرام مچ گیا۔حضرت عمرؓ خود بھی بہت رنجیدہ ہوئے اور اہل مدینہ کو بھی سوگ منانے کی اجازت دی۔
حضرت خالد بن ولیدؓ کے ترکے میں صرف ہتھیار، تلواریں، خنجر اور نیزے ہی تھے۔ ان ہتھیاروں کے علاوہ ایک غلام تھا کہ جو ہمیشہ آپؓ کے ساتھ رہا کرتا ۔اللہ کی یہ تلوار کہ جس نے دو عظیم سلطنتوں ( رومی اور ایرانی) کے چراغ بجھائے،وفات کے وقت ان کے پاس کچھ بھی نہ تھا۔ آپؓ نے جو کچھ بھی کمایا،وہ اللہ کی راہ میں خرچ کردیا۔ ساری زندگی میدان جنگ میں گزار دی۔حضرت خالدؓ کو اللہ تعالیٰ نے بہت سارے بیٹوں اور بیٹیوں سے نوازا تھا، مگر آپؓ کی اولاد کا بڑا حصہ آپؓ کے انتقال کے بعد شام میں طاعون کی بیماری کے باعث شہید ہوگیا۔حضرت ابوعبیدہؓ بھی اسی طاعون کی بیماری سے شام میں شہید ہوئے تھے۔
حضرت خالدؓ کی جنگی فتوحات کے بارے میں صحابہؓ نے گواہی دی کہ ان کی موجودگی میں ہم نے شام اور عراق میں کوئی بھی دو جمعے ایک شہر میں نہیں پڑھے اور اگلا جمعہ نئے فتح کیے ہوئے شہر میں ادا کرتے، یعنی ہر دو جمعوں کے درمیانی دنوں میں ایک شہر ضرور فتح ہوتا تھا۔ بڑے بڑے جلیل القدر صحابہؓ نے حضورﷺ سے حضرت خالدؓکے روحانی تعلق کی گواہی بھی دی۔ حضرت ابو طلحہؓ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کی وفات کے بعد صحابہؓ کو واقعہ سنایا کہ آپؓکو ایک بار چالیس مجاہدین کے ساتھ رومیوں کے علاقے میں بھیجا گیا۔ وہ سب رومیوں کے بہت بڑے لشکر کے نرغے میں آگئے۔ صورتحال بہت کشیدہ ہوگئی ۔ اس موقع پر حضورﷺ حضرت ابو عبیدہؓ کے خواب میں تشریف لائے اور فرمایا کہ فلاں جگہ خالد بن ولیدؓ پریشانی میں ہیں، جاؤ ان کی مدد کرو۔حضرت ابو عبیدہؓ اپنے لشکر کے ہمراہ وہاں گئے اور ان کی مدد کی۔ یہ حضورﷺ کے ساتھ آپؓ کے روحانی تعلق کی صرف ایک مثال ہے۔
حضرت خالد بن ولیدؓ نے حضورﷺکے بال مبارک کہ جو آپؓ نے حج کے موقع پر سنبھال لیے تھے ،کواپنی ٹوپی میں پرو رکھا تھا۔ یوں حضورﷺ کا لمس ہمیشہ آپؓ کے ہمراہ رہا۔ وہی لمس ان کی اصل طاقت تھی کہ جس کا وہ خود بھی اعتراف کرتے تھے ۔
حضرت خالد بن ولیدؓ کی زندگی پر نظر دوڑائی جائے اور اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ وہ کون سے عوامل تھے کہ جن کی وجہ سے قبیلہ قریش کا ایک جنگجو، عالم اسلام کا ایک عظیم سپہ سالار، کمانڈر اور عسکری حکمت ساز بنا ،تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کی جنگی حکمت عملی بہت غیر معمولی تھی۔ انہوں نے جو جنگی طریقہ اختیار کیا وہ اس زمانے کے لحاظ سے کئی سو سال آگے کاتھا۔ ان کی جنگی حکمت عملی اس وقت کے اعلیٰ ترین اذہان بھی نہیں سمجھ پاتے تھے ۔ان کی ذاتی دلیری، جرأت، شجاعت، بہادری، خطرات میں کود پڑنے کی عادت، جنون اور عشق کی حد تک یہ شوق کہ وہ اللہ کی راہ میں جہاد کریں، وہ تمام عوامل تھے کہ جنہوں نے آپؓ کو ’’سیف اللہ‘‘ بنا دیا۔ بعض کتابوں میں تو یہ بھی لکھا ہے کہ آپؓ صاحبِ کشف و کرامت مجاہد تھے۔ اس سے بڑی کرامت اور کیا ہوسکتی ہے کہ انہوں نے ۶۰ مجاہدین کے ساتھ ۶۰ ہزار کے لشکر پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ کونسے ایسے راز تھے کہ جو ان لوگوں کو معلوم تھے اور آج کے تاریخ دان ان سے ناواقف ہیں؟ وہ کونسی ایسی قوتیں تھیں کہ جو ان کے ساتھ کام کرتیں، مگر آنکھوں سے نظر نہیں آتی تھیں! اگر ایسی قوتوں کا کوئی وجود نہ ہو تو بظاہر ۶۰ ہزار کے لشکر کے مقابلے میں ۶۰مجاہدین لے کر جانے کا فیصلہ مجذوبیت کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا۔ لیکن حضرت خالد بن ولیدؓ کو معلوم تھا کہ ان کی پشت پر کونسی روحانی قوتیں کارفرما ہیں۔
اسکے بعد کی اسلامی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو وہ تمام غازی کہ جن کے تاریخ میں نام سنہرے حروف سے لکھے گئے اور جنہوں نے سلطنتوں کو فتح کیا ،وہ صرف ظاہری اسباب پر بھروسہ نہیں کرتے تھے ،بلکہ کچھ غیر معمولی روحانی قوتیں بھی ان کا ساتھ دیتی تھیں ۔یہی عنصر جنگ میں فیصلہ کن کردار ادا کرتا تھا۔ حضرت خالد بن ولیدؓ وہ پہلے مجاہد تھے کہ جنہوں نے عالم اسلام کی سرحدیں جزیرہ عرب سے باہر پھیلانے میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ آپؓ کے بعد آنے والے سینکڑوں غازی آپؓ کے نقش قدم پر چلے۔ یوں عالم اسلام کی سرحدیں وسیع سے وسیع تر ہوتی چلی گئیں۔ ان تمام لوگوں کے ساتھ جنگی حکمت عملی، دلیری، بہادری اور شجاعت جیسی خصوصیات وابستہ تھیں۔ ایک اور قدرمشترک’’ روحانی قوت‘‘ تھی کہ جو ان کو مزید پر اسرار بناتی تھی۔
عالم اسلام میں آج بھی اگر کوئی وجود تبدیلی لانا چاہتا ہے تو جب تک کہ اس کے وجود میں وہ پر اسرار عنصر شامل نہیں ہوگا کہ جس کا علامہ اقبالؒ نے ذکر کیا ہے وہ یہ کام سرانجام نہیں دے سکے گا۔
یہ غازی، یہ تیرے پر اسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے را
ختم شد