گھوڑ ا ، اژدھا اور رمضان
قرآنِ کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی وجود کے دو بنیادی حصے ہیں ۔ ایک اس کا روحانی وجود جس میں خیر و شر اور خداو آخرت کے تصورات ودیعت کیے گئے ہیں ۔دوسرا انسان کا حیوانی وجود جو انسان کے مادی جسم ، شکل و صورت اورجبلی تقاضوں پر مشتمل ہے ۔یہی حیوانی وجود اور اس کے تقاضے ہیں ، جن کے لیے عام زبان میں نفس کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے اس نفس کو ایک گھوڑ ے کی طرح بنایا ہے جو انسان کے لیے ہر طرح کی مشقت اٹھاتا ہے ۔جس طرح گھوڑ ا جنگ و امن ہر طرح کے حالات میں انسانوں کا سب سے کارآمد اور وفادار ساتھی رہا ہے ، اسی طرح یہ نفس بھی انسان کی سواری ہے ، جس کے ذریعے سے وہ مادی دنیا میں ہر طرح کی سعی و جہد کرتا ہے ۔تاہم یہ نفس اکثر حالات میں گھوڑ ا نہیں رہتا بلکہ ایک اژدھے میں تبدیل ہوجاتا ہے ۔
یہ اس وقت ہوتا ہے جب شیطان ، جسے قدیم صحیفوں میں سانپ کہا گیا ہے ، اپنا زہر اس میں منتقل کرتا ہے ۔ ضروریات، خواہشات، جذبات اور شہوات کی وہ وادیاں جو نفس کے گھوڑ ے کی جولاں گاہ ہیں ، ابلیسی سانپ کی پناہ گاہ بھی ہوتی ہیں ۔وہیں یہ اپنا نافرمانی کا زہر نفس میں انڈیلتا ہے ، جس کے بعد اس گھوڑ ے کی ٹانگیں ختم ہوجاتی ہیں ، اور اس کا دھڑ ایک اژدھے میں بدل جاتا ہے ۔یہ اژدھا شیطان سے بڑ ھ کر انسان کو نقصان پہنچاتا ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ یہ انسان کے روحانی وجود کو سالم نگل جاتا ہے ۔ رمضان کا مہینہ اسی اژدھے کو دوبارہ گھوڑ ا بنانے کامہینہ ہے ۔
اس مہینے میں اللہ تعالیٰ ایک طرف تو ابلیس کے تمام سانپوں کو بند کر دیتے ہیں اور دوسری طرف نفس پر زبردست مشقتیں ڈال کر اس کا آپریشن کیا جاتا ہے ۔اس گھوڑ ے کی ضروریات، خواہشات، جذبات اور شہوات پر پابندی لگادی جاتی ہے ۔جس کے بعد یہ اژدھا دوبارہ گھوڑ ا بن جاتا ہے ۔
تاہم بہت سے انسان اس آپریشن کی اہمیت کو نہیں سمجھتے ۔وہ روزے کی رسمی پابندیوں کو قبول تو کر لیتے ہیں ، مگر دل سے بدلنا نہیں چاہتے ۔ ایسے لوگوں کا نفس رمضان سے پہلے بھی اژدھا بنا رہتا ہے اور رمضان کے بعد بھی اس کی طاقت میں کوئی کمی نہیں آتی۔ قیامت کے دن ایسے اژدھوں کا مقام جنت کی پر فضا وادی نہیں ہو گی ، بلکہ انہیں ان کے آقا ابلیس کے ساتھ جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔
۔۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔