طیارے کا المناک حادثہ
لاہور سے کراچی جانے والا پی آئی اے کا ایک طیارہ لینڈنگ سے ایک منت قبل آبادی پر گر کر تباہ ہو گیا،طیارے میں سوار دو مسافر معجزانہ طور پر محفوظ رہے جن میں سے ایک پنجاب بینک کے سربراہ ظفر مسعود ہیں،دوسرے مسافر محمد زبیر انجینئر ہیں،ایئر پورٹ کی ملحقہ آبادی ماڈل ٹاؤن کے جن گھروں پر طیارہ گرا ان میں آٹھ افراد جاں بحق ہو گئے، زیادہ تر زخمی ہوئے،طیارے کو ایئر پورٹ پر لینڈنگ کے لئے کہہ دیا گیا تھا، لیکن پائلٹ لینڈنگ نہیں کر سکا۔پی آئی اے کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ایئر مارشل ارشد ملک نے کہا ہے کہ حادثے سے قبل پائلٹ نے کنٹرول ٹاور کو بتایا کہ طیارے کو تکنیکی مسئلہ درپیش ہے، پائلٹ کو بتایا گیا کہ دونوں رن وے خالی ہیں تاہم اس نے ”گو اراؤنڈ“ کا فیصلہ کیا، جہاز کو کون سے تکنیکی مسائل کا سامنا تھا اِس بارے میں تحقیقات کی جائیں گی تو معلوم ہو سکے گا۔
لاہور سے روانگی کے بعد طیارہ مقررہ وقت کے دوران کراچی پہنچا، پرواز ہموار تھی، زندہ بچ جانے والے دونوں مسافروں نے جو ابتدائی گفتگو کی اس میں انہوں نے کوئی ایسی بات نہیں کی، جس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکے کہ دورانِ پرواز طیارے میں کوئی تکنیکی خرابی نوٹ کی گئی، جو بھی خرابی حادثے کا باعث بنی وہ اُس وقت پیدا ہوئی جب طیارہ لینڈنگ کے لئے زمین کے قریب آ گیا تھا، جس آبادی پر طیارہ گرا وہ ائر پورٹ سے قریب اس جانب پہلی آبادی ہے اِس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حادثے کی تمام تر وجوہ اِس آخری منٹ کے اندر تلاش کرنے کی ضرورت ہو گی۔ ائر بس 320 اے طیارہ پرواز کے لئے بالکل فٹ تھا اور رپورٹس کے مطابق اکتوبر2020ء تک اس کی فٹنس کا سرٹیفکیٹ جاری ہو چکا تھا، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر طیارے کو حادثہ پیش نہ آ جاتا اور یہ معمول کی لینڈنگ کر لیتا تو اکتوبر تک اس کے بہت سے فلائٹ آپریشن مکمل ہو جاتے،لیکن بدقسمتی طیارے کے مسافروں کے ساتھ سفر کر رہی تھی۔
طیارہ زیادہ پرانا بھی نہیں تھا،دیکھ بھال بھی باقاعدہ ہوتی تھی،تکنیکی طور پر مکمل فٹ تھا، ٹیک آف سے پہلے طیارے کو انجینئروں سے کلیئر کرایا جاتا ہے،اِس لئے اب ہوا بازی کے مسلمہ بین الاقوامی اصولوں کے مطابق انکوائری کے بعد ہی کسی نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہے۔طیارے میں پرواز کا مکمل ریکارڈ ہوتا ہے، انکوائری میں اس سے بھی مدد لی جاتی ہے، تاہم اس سے قبل جو بھی گفتگو ہو رہی ہے وہ محض ظن و تخمین ہے او ر لوگوں کے اپنے اندازے ہیں۔سابق پائلٹ یا پائلٹوں کی تنظیم کے عہدیدار بھی اندازوں کی بنیاد پر ہی گفتگو کرتے ہیں،لینڈنگ سے پہلے بدقسمت طیارے کے پائلٹ کی اپنی جو کیفیت تھی اس سے تو کنٹرول ٹاور بھی پوری طرح آگاہ نہ تھا۔ آخری گفتگو میں بھی گھبراہٹ کے کوئی آثار نہیں تھے بس اتنا معلوم ہے کہ بات چیت کے 12سیکنڈ بعد ہی پائلٹ نے مے ڈے کا پیغام دے دیا، اِس لئے جب تک انکوائری میں کسی ٹھوس نتیجے پر نہیں پہنچا جاتا یا ماہرین اپنی ماہرانہ رائے کی روشنی میں کوئی نتیجہ نہیں نکال لیتے اُس وقت تک قیاس آرائیوں سے گریز ہی بہتر ہے۔ایسے مواقع پر ہر کوئی اپنی فکر کے مطابق کوئی نہ کوئی رائے قائم کر ہی لیتا ہے، جن لوگوں کو ہوا بازی کی ابجد کا بھی علم نہیں ہوتا وہ بھی ماہر بننے کی کوشش کرتے ہیں، سازشی تھیوریاں بھی سامنے آتی ہیں،اِس لئے اس حادثے پر بھی اگر ایسا ہے تو روایت کے عین مطابق ہے تاہم عقل و دانش کا تقاضا ہے کہ انکوائری سے پہلے قیاس کے گھوڑے نہ دوڑائے جائیں اور ایسے حادثات کے بعد دُنیا میں انکوائری کے جو طریقے مروج ہیں انہیں بروئے کار آنے دیا جائے،پھر کوئی رائے قائم کی جائے۔
طیارہ ساز کمپنیاں جب ہر طرح کی تسلی کے بعد کسی طیارے کو پرواز کے لئے میدان میں اتارتی ہیں تو انہوں نے پیش بندی کے طور پر ایسے اقدامات کر رکھے ہوتے ہیں کہ کسی بھی وجہ سے اگر حادثہ پیش آ جاتا ہے تو ماہرین بڑی حد تک درست اندازہ لگانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ حادثے کی وجہ طیارے کی کوئی تکنیکی خرابی تھی یا اس میں انسانی غلطی کا عمل دخل تھا،دُنیا بھر میں اِس وقت جو ہزاروں طیارے ہر وقت فضاؤں میں اڑتے پھرتے ہیں وہ سب لگے بندھے اور طے شدہ ضابطوں کے مطابق ہی پرواز کرتے ہیں۔ایسا بھی ہوتا ہے کہ نئے طیارے کی پروازوں کا سفر ابھی شروع ہی ہوا ہوتا ہے، جہاز اُڑانے والے بھی مشاق اور ماہر ہوتے ہیں اِس کے باوجود حادثات ہو جاتے ہیں۔ البتہ دُنیا کی بڑی بڑی فضائی کمپنیاں کوشش کرتی ہیں کہ اُن کی ساکھ بہترین رہے اور مسافروں کے اعتماد کی بدولت ہی اُن کی کامیابیوں کا گراف اوپر نیچے آتا ہے، دُنیا میں کہیں بھی طیارے کا حادثہ ہو جائے طیارہ ساز کمپنی کو اس کی سب سے زیاد فکر لاحق ہوتی ہے اور وہ سوچتی ہے۔دُنیا کے تیز رفتار ترین طیارے کنکورڈ کے پورے فلیٹ کو ایک حادثے ہی کے نتیجے میں گراؤنڈ کر دیا گیا تھا،حالانکہ حادثہ ایک ایئر پورٹ پر کھڑے طیارے کو پیش آیا تھا، باقی طیاروں کو بظاہر کوئی خطرہ نہ تھا،لیکن اس کے بعد آج تک کنکورڈ طیاروں کا سفر ہی ختم ہو گیا۔
طیاروں کے زیادہ تر حادثات یا تو ٹیک آف کے تھوڑی دیر بعد ہوتے ہیں یا لینڈنگ سے ذرا پہلے، مڈ ائر کریش مقابلتاً بہت کم ہوتے ہیں،اِس لئے ٹیک آف اور لینڈنگ کے وقت مسافروں سے خصوصی احتیاط کا تقاضا بھی ہوتا ہے اور حفاظتی بیلٹ بھی باندھی جاتی ہیں اس پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے کہ دوران ٹیک آف یا لینڈنگ کوئی مسافر اپنی نشست چھوڑ کر اِدھر اُدھرگھوم پھر نہ رہا ہو، طیارے کا کیبن کریو بھی ایسے مواقع پر اپنی نشستوں پر بیٹھ جاتا ہے، پی آئی اے کے جس طیارے کو حادثہ پیش آیا ہے وہ بھی لینڈنگ سے عین پہلے ہوا،دوران پرواز کسی نے کوئی غیر معمولی بات نوٹ نہ کی۔ پائلٹ اور کنٹرول ٹاور کی جو گفتگو منظر عام پر آئی ہے اس میں بھی کسی غیر معمولی گھبراہٹ یا اضطراب کی کوئی جھلک سنائی نہیں دیتی،اِس کا مطلب یہی ہے کہ سب کچھ معمول کے مطابق تھا، حادثے میں جو قیمتی جانیں ضائع ہوئیں وہ قوم و ملک کے ساتھ متعلقہ خاندانوں کا بھی بڑا نقصان ہے، طیارے میں کیا کیا ارمان لے کر مسافر سوار نہیں ہوئے ہوں گے، لیکن ڈیڑھ گھنٹے کے سفر میں سب کچھ ختم ہو گیا،جو دو مسافر معجزانہ طور پر بچ رہے وہ اس امر کی زندہ شہادت ہیں کہ موت زندگی کی حفاظت کرتی ہے، قیامت صغریٰ کے یہ لمحات بھی ان دو زندگیوں کا کچھ نہ بگاڑ سکے، شہدا پر اللہ کی بے پایاں رحمتیں ہوں اور پس ماندگان کو یہ جانکاہ صدمہ عزم و حوصلے سے برداشت کرنے کی توفیق ارزانی ہو۔