خطے کی نئی صف بندی
دنیا میں شاید کوئی ایسا ملک ہو جس کا کوئی ایشو نہ ہویا جہاں بد امنی نہ ہو۔ ملک کا مسئلہ قومی بھی ہو سکتا ہے اور بین الاقوامی بھی۔ کوئی تنازع ہمسایہ ممالک میں بھی ہوسکتا ہے اور دو ایسے ممالک میں بھی جو بہت دور بیٹھے ہوں۔ ہمسایہ ممالک میں نوک جھوک بھی چلتی رہتی ہے۔ کئی ممالک میں بیانئیے یا نظریے کی جنگ چل رہی ہوتی ہے تو کئی ممالک کوسوں دور بیٹھے ایک دوسرے کے خلاف عملی جنگ کا محاذ کھول لیتے ہیں۔جیسے پاکستان اور بھارت ہر محاذ پر مدمقابل رہتے ہیں سرحدی کشیدگی بھی ہوتی ہے۔جیسے ایران اور سعودی تنازعہ آج تک چل رہا ہے۔جیسے کشمیر اور فلسطین میں بین الاقوامی قوتوں کی لگائی ہوئی آگ آج بھی کبھی جل اٹھتی ہے، کبھی سلگنا شروع ہو جاتی ہے۔
روس اور امریکہ میں کشمکش دہائیوں پرانی ہے اور مسلسل چل رہی ہے۔ ماضی میں اس کو ماہرین نے کولڈ وار یعنی سرد جنگ کا نام دیا۔اس سرد جنگ کے دورانیے پر کئی فلمیں بھی بن چکی ہیں جن میں دونوں ممالک کے سٹیک ہولڈرز اپنے ملک، فوج اور نظریے کو بہتر اور دوسرے کو بدتر دکھا کر پیش کرتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں اس روایتی مسابقت میں ایک پیش رفت ہوئی ہے۔ امریکہ نے روس کے قریبا دس سفارتی اہلکاروں کو ملک بدر کردیا ہے اور الزام یہ لگایا ہے کہ روسی ہیکرز 2020ء کے امریکی الیکشن پر اثر انداز ہوئے ہیں۔ان ہیکرز نے سوفٹ وئیر بنانے اور مختلف ممالک کو بیچنے والے سولر ونڈز نامی ایک ادارے میں گھس کر ڈیٹا چرایا ہے۔ روسی صدر اور دفتر خارجہ نے سرکاری سطح پر اس الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ ساتھ ہی روس کی جانب سے بھی قریبا اتنے ہی امریکی اہلکاروں کو ملک بدر کردیا اور اعلیٰ امریکی حکام کے روس داخلے پر پابندی بھی عائد کی گئی ہے۔اعلیٰ حکام میں ایف بی آئی کے ڈائریکٹر، امریکی ڈومیسٹک پالیسی کے مشیر اور یو ایس اٹارنی جنر ل شامل ہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ وہ روس کو اس بار ٹف ٹائم دیں گے کہ انہوں نے امریکہ کے اندرونی اور اہم معاملات میں ٹانگ اڑانے کی کوشش کی ہے جو کسی بھی طرح قابل قبول نہیں۔ ملک بدر کیے گئے سفارتی اہلکاروں کے بعد امریکہ روس کو اور بھی زیادہ مشکل حالات میں دھکیلنے کیلئے مزید پابندیوں کا سوچ رہا ہے۔ اس سلسلے میں امریکہ اپنے ہتھیار بلیک سی میں داخل کررہا ہے اور روس یوکرین میں ہزاروں فوجیوں کو بھیج رہا ہے۔مطلب ہر سطح پر دونوں ممالک بزور طاقت و وسائل ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے تیارکھڑے ہیں۔
روس نے ایک قدم اور آگے بڑھ کر امریکی این جی اوز کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کا بھی اعلان کردیا۔اس بار روس کی جانب سے جارحانہ رویہ دیکھا جارہا ہے۔
البتہ روس پاکستان کی طرف مہربان ہوکربڑی آفر دے چکا ہے کہ جو مانگو گے ملے گا۔ جب چاہو گے ہمیں تیار پاؤ گے۔ جب پکارو گے ہمیں حاضر پاؤ گے۔ امریکہ کا اس پر ری ایکشن تو بنتا ہے کہ یہ کیا دوستی کی پینگیں بڑھائی جا رہی ہیں۔ ہم نے افغانستان سے نکلنے کی بات کی کہ روس پہلے سے ہی تیار کھڑا ہے۔ جس پاکستان کی مدد اور تعاون سے ہم افغان خطے سے نکل رہے ہیں وہاں روس پاکستان سے دوستی کا ہاتھ بڑھا رہا ہے۔ یہ تو ہم نہیں ہونے دیں گے۔پاکستان پچھلے دو سال سے روسی سپیشل فورسز سے محدود پیمانے پر فوجی مشقیں بھی کر چکا ہے اور مزید دوطرفہ تعلقات بڑھانے کا سوچ رہا ہے۔
یہ تو ہو گا جب امریکہ بھارت، آسڑیلیا، نیوزی لینڈ اور جاپان کے ساتھ مل کر ایک نیا محاذ چین کے خلاف گرم کر رہا ہے۔امریکہ جب چاہتا ہے اپنی پر اثر خارجہ پالیسی کی بنا پر کسی بھی ملک کو اپنا اتحادی بنا کر اس کے پہلے سے موجود مسائل پر پردہ ڈال دیتا ہے اور جب مطلب پورا ہوجاتا ہے تو اسی اتحادی سے آنکھیں پھیر لیتا ہے۔ پاکستان امریکہ کا دہشت گردی کی جنگ میں ہراول دستہ تھالیکن جیسے ہی اسامہ بن لادن کا کام تمام ہوا، امریکی اتحاد آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنا شروع ہوا۔ اور اب وقت یہ ہے کہ پاکستان کو فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلنے میں اپنی مدد آپ ہی درکار ہے۔ الٹا یہی سننے کو ملتاہے کہ دہشت گردوں کی پشت پناہی ترک کرو۔ان کی امداد بند کردو۔ اس ضمن میں امریکہ افغان سویت وار بھول جاتا ہے جب پاکستان پر اتنا ہی مہربان تھاجتنا روس اب ہے۔ دراصل روس چین کے ون بیلٹ ون روڈ انیشیٹو کو اپنے لیے فائدہ مند دیکھ رہا ہے۔ پاکستان سے گزرنے والی سڑک پر چین کا تجارتی سامان آئے جائے تو کیوں نہ روس بھی اپنا سامان یہاں سے گزار کرچین کی طرح خرچہ بچائے۔اس لیے روس کو پاکستان کے پاس تو آنا ہی ہوگا۔
ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر نئی شروعات کرنی چاہئے۔پاکستان کو بھی اس دوستی کے اشارے کا مثبت جواب دینا چاہئے۔ پاکستان اب مزید کوئی پراکسی جنگ لڑنے کا اہل ہے اور نہ ہی حالات ویسے ہیں کہ پرائے کی جنگ اپنی دہلیز پر لائی جائے اور اپنے ہی لاکھوں افراد کو قربان کروادیا جائے۔ بقول آرمی چیف سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ ہمیں ماضی کو بھلا کر آگے بڑھنا ہے اور ہمسایوں سے اچھے تعلقات قائم کرنے ہیں۔اپنے اور اپنے گھر کو ٹھیک کرنے کا وقت ہے۔ اپنی تمام تر خارجہ پالیسیوں کو از سر نو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔